آر آر آر - راجا مولی کی نئی فلم - ہنگامہ خیز بین الاقوامی آغاز - تبصرہ تجزیہ - Musafir | Bollywood Entertainment | Best Songs & Articles Urdu Script

2022/03/28

آر آر آر - راجا مولی کی نئی فلم - ہنگامہ خیز بین الاقوامی آغاز - تبصرہ تجزیہ

RRR-2022-movie-rajamouli

فلم تبصرہ از: امین صدرالدین بھایانی (اٹلانٹا، امریکہ)


فلم کا نام: آر آر آر - RRR
تاریخ ریلیز: 25/مارچ 2022
فلم کی نوعیت: تاریخی ایکشن، ڈراما
ڈائریکٹر: ایس۔ ایس۔ راجامولی [S. S. Rajamouli]
کہانی: کے۔ وی۔ وجیندر پرساد
موسیقی: ایم۔ایم۔ کیراوانی
نغمے (ہندی): رِیا مکرجی
مرکزی اداکار: جونئر این۔ٹی۔آر، رام چرن، اجے دیوگن، عالیہ بھٹ، اولیویا مورس، ایلیسن ڈوبی، رے اسٹیون سن۔
فلم کی ریٹنگ: 9.1 IMDB


فلم بینی و فلم سازی کے دو نظریات ہوتے ہیں:
(1) تفریج / انٹرٹینمنٹ / منورنجن
(2) حقیقت نگاری / سماجی و اخلاقی تعلیم و تربیت / پروپیگنڈا
اگر آپ کا تعلق فلم بینوں کے اولین طبقے سے ہے تو زیر تبصرہ فلم یقیناً آپ ہی کے لیے ہے۔


جی ہاں، بالکل آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میرا تعلق کس طبقے سے ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ ویسے تو میں ہر طرح کی فلم دیکھنا پسند کرتا ہوں مگر یہ بھِی سچ ہے کہ اکثر گردشِ دوراں کو بھولنے کے لیے بھِی فلم دیکھ لیا کرتا ہوں اور شاید فلم بینوں کی اکثریت کا فلم بینی کا مطمعِ نظر کم و بیش یہ ہی ہے۔
تو صاحبان، اگر آپ کی فلم بینی کا ایک مقصد بنا کسی مقصد اور سینس کی تلاش کے، خالصتاً تفریح طبع ہے تو پہلی فرصت میں یہ فلم ضرور دیکھیں اور اگر آپ کا مقصد فلم میں کسی مقصدیت کی تلاش ہے تو میری مانیں یہ فلم آپ کے لیے ہرگز نہیں۔


گذشتہ ایک دہائی سے جنوبی ہندوستان کی فلموں نے ایک الگ ہی نوعیت کی دھوم مچا رکھی ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ یہاں سوشل میڈیا پر اس دھوم کا ڈھنڈورا ہندوستانیوں سے کہیں زیادہ ہمارے پاکستانی بھائی پیٹتے نظر آتے ہیں۔ اسی ڈھنڈورے کے سبب میں چند برس قبل ریلیز ہونے والی جنوبی ہندوستانی فلم "باہو بلی" سے واقف ہوا اور میں نے یہ فلم نیٹ فلیکس پر تلاش کر کے دیکھی۔
ایسا ہی کچھ اس فلم کے ساتھ بھی ہوا۔
پچھلے چند ماہ سے یہاں فیس بک پر جنوبی ہندوستانی سنیما کے چند پاکستانی متاثرین کی جانب سے مسلسل اس فلم کے حوالے سے پے در پے پوسٹ آویزاں کی جا رہی تھیں اور پھر فلم پر ہونے والے تبصروں نے میرے اندر کے فلم بین کو اس فلم کو سنیما جا کر دیکھنے پر آمادہ کر ہی دیا۔
میں نے سوچا کہ اگر فلم دیکھنے جانا ہی ہے تو پھر سارا ٹین ٹبر ہی کیوں نہ جا کر فلم دیکھے اور لطف اندوز ہو۔
دو روز قبل بچوں سے کہا کہ اتوار والے روز چل کر یہ نئی فلم جس کی اس قدر ہائپ ہے سنیما میں دیکھی جائے۔
اس وقت تو انھوں نے یہ کہہ کر ہامی بھر لی کہ اگر ہمارے اسکول و کالج سے اسائینمنٹ پورے ہو گئے تو ضرور دیکھنے چلیں گے مگر اگلے روز جب ان سے اس حوالے سے دوبارہ بات ہوئی تو پتہ چلا کہ انھوں نے یو ٹیوب پر موجود فلم کا ٹریلر دیکھ کر فلم دیکھنے کا ارادہ ہی ترک کر دیا ہے۔


بہرطور بیگم نے اپنا ارادہ مستحکم رکھا کہ بقول شاعر تیری میری اک مرضی اور ہم پروگرام کے عین مطابق صبح گیارہ بجے والا شو دیکھنے نکل پڑے۔
میں نے یہاں کے مشہور سنیما چین "اے ایم سی" کا ماہانہ پاس بنوا رکھا ہے جس کے تحت بائیس ڈالر ماہانہ دے کر آپ ہفتہ بھر میں کوئی بھی تین نئی یا پرانی فلم دیکھ سکتے ہیں اور اس طرح سے پورے ماہ میں کل بارہ فلمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
مگر یہ فلم اس پاس سے مستنیٰ تھی۔ سوچا کوئی بات نہیں صبح والے شو کی ٹکٹ فقط پانچ ڈالر کی ہوتی ہے مگر جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس فلم کا ٹکٹ پندرہ ڈالر کا ہے۔
شاید آپ کو میری بات کا یقین نہ ائے کہ میں نے یہاں امریکا میں گذشتہ بائیس برس میں اب تک کی تاریخ کا جو سب سے مہنگا فلم ٹکٹ خریدا وہ اسی فلم کا ہے۔ جی ہاں سولہ ڈالر بیس سینٹ مع ٹیکس یعنی کہ تقریناً تین بزار پاکستانی یا تیرہ سو ہندوستانی روپے۔
بہرطور، اپنا اور بیگم کا ٹکٹ لے کر جب ہم سنیما ہال میں داخل ہوئے تو بہ مشکل تمام سات آٹھ فلم بین موجود تھے اور چند ہی لمحات میں فلم کا آغاز ہو گیا۔


1920ء کے ہندوستان میں انگریز راج کے پسِ منظر میں فلمائی گئی فلم کی کہانی انگریز گورنر (آئرش اداکار رے اسٹی ون سن) کی بیگم (آئریش اداکارہ ایلی سن ڈابی جس نے جمیس بانڈ سریز کی مشہور فلم "اے ویو ٹو کل" اور انڈیانا جونس سیریز کی فلم "لاسٹ کروسیڈ" میں بھی اہم کردار ادا کیے تھے) سے شروع پوتی ہے جو ایک قبائلی علاقے کی ایک ننھی بچی جو کہ مہندی کی مانند ہاتھوں میں خوب صورت گل بوٹے بناتی ہے اور اس دوران بے حد سریلی آواز میں گیت گاتی ہے کو اپنے گورنر شوہر سے کہہ کر زبردستی اپنے ساتھ گورنر ہاوس لے جا کر قید کر دیتی ہے اور گورنر جاتے جاتے اس کی ماں کو اس ظلم پر احتجاج کے جرم پر اپنے ایک سپاہی کے ہاتھوں مروا دیتا ہے۔


فلم کے اگلے منطر میں فلم کے دو میں سے ایک ہیرو پولیس انسپکر راجو (اداکار رام چرن) کی طوفانی انٹری ہوتی ہے جو کہ اکیلا بلامبالغہ ہزاروں کے بھپرے ہوئے اجتجاجی مجمع کو اکیلا ہی مار مار کے نہ صرف بھگا دیتا ہے بلکہ ہزاروں کے اس مجمعع کے محاصرے کو چیرتا، پچھاڑتا اور ہواؤں میں آڑاتا ان کے لیڈر کو گرفتار کر کے اپنے افسر کے قدموں میں لا ڈالتا ہے۔
کاش کہ ایسا ایک بھی پولس افسر کراچی پولیس میں ہوتا تو کراچی کے نشاط اور پرنس سنیما آج بھی اپنی جگہ موجود ہوتے۔


پھر ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ طوفانی آمد فلم کے دوسرے ہیرو بھیم عرف اختر (اداکار این ٹی راما راؤ جونیئر عرف این ٹی آر) جو کہ دہلی سے متصل ایک جنگل میں شیر اور چیتے کو زندہ پکڑنے میں مصروف ہے۔
بھیم جو کہ اسی قبیلے کا محافظ ہے ایک مسلمان اختر کا روپ دھار کر دہلی آتا ہے تاکہ بچی کو گورنر کی قید سے آزاد کروا سکے۔
بس پھر یہیں سے شروع ہوتا ہے ایکشن کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جس میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب تین گھنٹے آٹھ منٹ پورے ہو گئے۔ جی ہاں یہ فلم اتنی ہی طویل ہے مگر لگتی نہیں۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
آر آر آر - ابھرنا گرجنا بغاوت - راجا مولی کی نئی فلم

پانچ سو پچاس کروڑ، یا ایک دوسری ویب سائٹ کی اطلاع کے مطابق چار سو کروڑ کی خطیر لاگت سے تیار شدہ اس فلم جس نے نیٹ پر موجود اطلاعات کے مطابق اب تک ڈھائی سے تین سو کروڑ کا بزنس کر لیا ہے اہم ترین خوبیوں میں اس کے مرکزی اداکاروں بہ طورِ خاص فلم کے دونوں ہیرو اور اداکار این ٹی آر کی ہیروین کا کردار ادا کرنے والی برطانوی نژاد ہالی وڈ اداکارہ اولیویا مورس نے بہت عمدہ کردارنگاری کا مظاہرہ کیا ہے۔
اجے دیوگن نے فلیش بیک میں انسپکر راجو کے باپ کا کردار نبھایا ہے، جو کہ پہلے خود انگریز سرکار کی پولیس کا ایک کانسٹیبل ہوتا ہے مگر تائب ہو کر انگریز مخالف جتھے کا سربراہ بن کر انھِیں انگریزوں سے جنگ کی تربیت دیتا ہے۔
گو کہ کردار مختصر ہے مگر عمدگی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔
عالیہ بھٹ جو کہ راجو کی ہیروین ہے، کا کردار بھی مختصر ہے اور کاسٹ ویلیو میں اضافے کے لیے شامل کیا گیا ہے مگر عالیہ نے بھی اپنا کردار بہت خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے۔


اِن سب باتوں سے بھی بڑھ کر فلم کی اہم ترین بات فلم کی ہدایت کاری ہے۔
کسی بھی فلم کی ساری خوبی اس کی اسٹوری ٹیلنگ کے کرافٹ میں ہے۔ فلم کا اسکرین پلے اور ہدایت کاری اس قدر عمدہ ہے کہ پوری فلم کے دوران فلم بین کا دھیان مکمل طور پر فلم ہی کی جانب مرکور رہتا ہے۔
فلم کی عکاسی بھی بے حد شاندار ہے بالکل ہالی وڈ کی فلموں کے معیار کے مطابق اور یہی حال فلم کے وی ایف ایکس کا بھی ہے۔
دراصل یہ ساری فلم ہے ہی وی ایف ایکس کا کمال۔ اگر وی ایف ایکس نکل دیں تو بس باقی بچتی ہے ہدایت کار کی ہدایتکاری و منظر نامہ اور مرکزی کرداروں کی عمدہ کردار نگاری۔


چلیں اب لگے ہاتھوں فلم کی چند ایک بونگیوں کا بھی تذکرہ ہو ہی جائے۔
ہیرو کی چلائی گولیاں، تیر، پتھر کبھی نہیں چوکتے مگر فوج کی پوری پوری برگیڈ و بٹالین کی چلائی گئیں گولیاں بلکہ پورے پورے توپ کے گولے ہیرو کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے۔
ہیرو کی چلائی فقط ایک گولی سے فوج سپاہیوں سے بھری بھاری بھرکم جیپیں ہوا میں اڑنے لگتی ہیں مگر فوج کے توپ جی ہاں اصلی تے ودی توپ کے گولے گھوڑوں پر سوار دونوں ہیروں کے عین درمیان جا جا کر پھٹ رہے ہیں مگر ہوا میں آڑنا تو ندارد مجال ہے کہ گھوڑوں کی دلکی چال میں کو معمولی سے لغزش تک آ جائے۔


اب یہ ہی کام ہماری فلم "مولا جٹ" میں سلطان راہی مرحوم کرتا نظر آئے تو وہ بات کیوں ناممکن لگتی ہے؟
ایک منظر میں جب راجو کو سانپ کاٹ لیتا ہے اور اختر اس کا علاج کر کے اسے اس کے گھر لا کر بستر پر لٹا کر اپنا راز کہ دراصل وہ ہے کون بتا کر جانے لگتا ہے، تو راجو بستر کے دائیں سرہانے سے اتر کر اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے مگر اختر جا چکا ہوتا ہے اور وہ گر پڑتا ہے۔ اگلے منظر میں اب بستر کے بائیں سرہانے کی جانب بستر سے کافی دور کتابوں کے ڈھیر کے درمیان پڑا نظر آتا ہے۔ یعنی وہ بستر سے تو گرنے دائیں جانب لگا مگر گرا بائیں جانب وہ بھی بستر سے کافی دور۔


فلم 1920ء کے پس منظر میں فلمائی گئی ہے۔ سب کچھ اس دور کے ماحول کی مناسبت سے ہی دکھائی دیتے ہیں مگر دونوں ہیرو کے ملبوسات جب جب وہ پتلون، قمیض، ٹی شرٹ، ٹو پیس سوٹ میں ملنوس دکھائی دیتے ہیں ان کی تراش خراش 1920 کی بجائے 2022 کی لگتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ہیرو ابھی ابھی کسی ملبوسات کے برانڈڈ شو روم سے خریداری کر کے سیدھے فلم کی شوٹنگ پر چلے ائے ہیں۔
فلم کے آخری منظر میں فلم کی شروعات میں گورنر کے سپاہی کے ہاتھوں ماری جانے والی ماں زندہ پائی جاتی ہے۔ چھوڑیں جانے دیں۔ اس طرح سے تو ہوتا ہے اسی طرح کی فلموں میں۔۔۔


ایک اور بات:
یہاں سوشل میدیا میں اس نوعیت کی فلموں سے دل چسپی رکھنے والے احباب اِسے "کلاسک" فلم قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ فلم "مدر انڈیا"، "آن"، "پیاسا"، 'پاکیزہ"، "شعلے"، "دل والے دلہنا لے جائیں گے"، "تھری ایڈیٹس" اور "پی کے" کے پاسنگ بھی ہے؟
میری رائے میں یہ ایک بھرپور پیسہ وصول تفریحی فلم ہے جسے دیکھ کر مجھے اپنے سولہ ڈالر خرچ ہونے کا افسوس تو بالکل نہیں ہوا مگر میں اِسے کسی طور بھی اوپر درج شدہ کلاسک فلموں کے زمرمے میں شامل نہیں کر سکتا۔ بہرطور یہ میری اپنی رائے ہے۔ آپ یہ فلم دیکھیں اور اپنی رائے خود بنائیں۔


اور ہاں اس فلم کے ہندی ورژن کو ہندی کہنا کسی طور درست نہیں، مکمل اور سلیس اردو میں ڈبینگ کی گئی ہے، حتیٰ کہ گڈریا، میمنہ اور بھیڑ جیسے بے شمار اردو الفاظ سن کر بھلا اِسے اردو کیوں نہ کہا جائے۔
میں اس فلم کو اپنی گوناگوں خوبیوں کے سبب پانچ میں سے پونے چار ستارے دیتا ہوں۔


RRR (2022), Movie review. Reviewer:Amin Bhayani.

No comments:

Post a Comment