فلمی تجزیہ از: مکرم نیاز
منطرِ اول:
مقام: کرلا (ممبئی) کا ایک مکان، تاریخ: 18/جنوری 1989ء، وقت: 9 بجے شب
انجینئرنگ گریجویشن کے آخری سال کے فائنل امتحانات سے چند ماہ قبل ہم تمام ہم جماعت کالج انتظامیہ کی اجازت سے جنوبی ہند کے مختلف مقامات کی سیر و تفریح کے لیے نکلے تھے، آخری پڑاؤ ممبئی تھا۔ اتفاق سے ممبئی میں راقم کے ایک قلمی دوست سے پہلی روبرو ملاقات کا نادر موقع بھی دستیاب ہوا، وہ گھر لے گئے جہاں ان کے والدین اور تینوں بھائی عشائیہ پر منتظر تھے۔ اس زمانے میں انٹرٹینمنٹ کا واحد ذریعہ ٹیلی وژن تھا اور عموماً رات کے کھانے پر ٹی۔وی کے سامنے تمام اہل خانہ جمع ہوتے تھے۔ تو کھانے کے دوران اچانک سب کی نظریں ٹی۔وی کے ایک نئے سیرئیل پر جم کر رہ گئیں کہ اس میں ایک بھولا بھالا نوجوان فوجی مشقوں کے دوران اپنے گھنے بال، منفرد اسٹائل، ڈائیلاگ ڈیلیوری، چہرے پر چھائی معصومیت اور ہونٹوں کے ایک گوشے سے مچلتی مسکراہٹ کے سہارے سب کی توجہ کھینچ رہا تھا۔۔۔ یکایک میرے منہ سے نکلا:
"یہ تو ہمارے ابا چاچا کے زمانے کے دلیپ کمار کا اپ-ڈیٹیڈ ورژن لگتا ہے"
کمرے میں موجود سب لوگ ایک ساتھ ہنس پڑے، مگر میرے دوست کے والد نے میری بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ: لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ سیرئیل کے اختتام پر میں نے اپنے دوست سے کہا:
"میری ایک بات لکھ رکھنا، اگر یہ بندہ بالی ووڈ میں آ جائے تو راجہ بن کر راج کرے گا"۔
دوردرشن انڈیا کے اس سیرئیل کا نام تھا: "فوجی" اور سیرئیل میں جس نوجوان نے انڈر ٹریننگ لیفٹننٹ ابھیمنیو رائے کا کردار ادا کیا تھا، اس کا نام تھا: شاہ رخ خاں!
پھر ہم نے سیرئیل "فوجی" کی تمام 13 قسطیں پابندی سے دیکھنے کے بعد شاہ رخ خاں کے باقی تمام ٹی وی سیرئیل بھی اسی اہتمام اور ذوق و شوق کے ساتھ دیکھے، جن میں ان کا پہلا سیرئیل "دل دریا" (جو کسی باعث "فوجی" کے بعد ریلیز ہوا تھا)، "سرکس" اور "دوسرا کیول" شامل ہیں۔
منظرِ ثانی:
مقام: رام کرشنا تھیٹر (عابڈز، حیدرآباد)، تاریخ: 28/جون 1992ء بروز اتوار، وقت: 6 ساعت شام
انجینئرنگ گریجویشن کی تکمیل کے بعد ہم سب ہم جماعت اپنی اپنی زندگی کی نئی راہوں پر چل پڑے تھے، دو دوست کسی خلیجی ملک سدھار گئے تو دو امریکہ/کنیڈا ، دو دوست اعلیٰ تعلیم کی خاطر کسی دوسرے شہر منتقل ہوئے۔ پھر بھی مجھ سمیت جو پانچ چھ ہم جماعت حیدرآباد میں موجود تھے، تو ہم دو چار ہفتوں میں ایک مرتبہ آپسی ملاقات کا اہتمام ضرور کیا کرتے۔ یوں ایسی ہی ایک گیدرنگ ماہ جون 1992ء کے آخری اتوار کو شہر کی مشہور و مقبول تھیٹر "رام کرشنا" میں منعقد ہوئی۔ انٹرول سے پہلے کے نصف حصہ میں تو چند ہم جماعتوں نے مختلف نعرے کس کس کے اس دوست کو خوب ستایا جس نے یہ فلم دیکھنے کی رائے دی تھی۔ وہ دور عامر خاں، سلمان خاں، انیل کپور اور گووندا کی دلچسپ اور قابل دید فلموں کا تھا اور ادھر پردے پر ایک نوخیز حسینہ کے ساتھ ناچ گا رہے تھے، ادھیڑ عمر کے، مختلف رنگ و ڈیزائن کے سوئٹر پہنے رشی کپور۔ ایسے میں ہم دوستوں کے بیچ "بس کرو چچا" جیسے جلے بھنے فقروں کا کسا جانا حق بجانب تھا۔ خیر انٹرول ہوا ۔۔۔ اور انٹرول کے بعد کا پہلا منظر ۔۔۔
سڑک پر چند نوجوانوں کی دوڑتی بھاگتی موٹر سائیکلوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہوا دوردرشن ٹی۔وی سیرئیلز والا وہی نوجوان معصوم جگمگاتا روشن چہرہ:
"کوئی نہ کوئی چاہیے ہم پہ مرنے والا"
پھر یہ ہوا کہ پوری تھیٹر جو انٹرول سے قبل ساکت و جامد تھی، اچانک مختلف ستائشی نعروں، زوردار تالیوں، بلند آہنگ سیٹیوں سے گونج اٹھی۔ شور و غل اتنا برپا تھا کہ فلم "دیوانہ" کا مقبول عام وہ سارا گانا ہی پس منظر میں چلا گیا اور دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے فلم بین چلا اٹھے: اے اسٹار از بورن!
بالی ووڈ کے فلمی افق پر اپنی تابناک روشنی کے سہارے چھا جانے والا وہ ستارہ تھا : شاہ رخ خاں المعروف کنگ خاں !!
اور یوں جس فرد کو صرف ایک چاہنے والا درکار تھا، اس پر مر مٹنے والی ایک بڑی دنیا اسے حاصل ہو گئی۔
***
آخری بار سینما تھیٹر کے بڑے پردے پر فلم "گڈو" (اگست 1995ء) کو دیکھنے کے پورے اکیس (21) سال بعد شاہ رخ خاں کو دوبارہ سینما کی بڑی اسکرین پر "ڈئر زندگی" (نومبر 2016ء) کے ذریعے دیکھنے کا موقع ملا تو لگا کہ پل کے نیچے سے بہت سا پانی ہرچند بہہ چکا ہو مگر ستون کی مضبوطی اور پامردی میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا۔ سمندر کی موجوں سے کبڈی کھیلنے کا سبق سکھاتے ہوئے ڈاکٹر جہانگیر جگ خاں (شاہ رخ خاں) نے اس فلم میں کیا ہی خوب کہا کہ:
ہم سب زندگی کے مدرسے میں خود اپنے استاذ ہوتے ہیں!
خود کو محفوظ سمجھنے کے لیے پہلے سارے ڈر مٹانا ضروری ہے۔
اور ۔۔۔
جینئس وہ نہیں ہوتا جس کے پاس سب سوال کے جواب ہوں، جینئس وہ ہوتا ہے جس کے پاس جواب تک پہنچنے کا صبر ہو۔
پٹھان، جوان اور ڈنکی کے ذریعے کروڑوں انسانوں کے دلوں کی دھڑکن شاہ رخ خاں المعروف کنگ خاں جس جواب کو پانے کے لیے صبر و تحمل سے انتظار کر رہے ہیں، اس عظیم اداکار کی زندہ دلی، بےجگری، توانائی، جوش ولولہ اور یقینِ محکم کو ہم سلام کرتے ہیں۔۔۔ دل سے!
***
اقتباس از مضمون: "بالی ووڈ کنگ خان کا تابناک دور - منفرد فلمیں"
مکرم نیاز کی دوسری کتاب امیزون انٹرنیشنل پر یہاں سے خریدی جا سکتی ہے:
فلمی دنیا: قلمی جائزہ [ISBN:978-93-5701-277-5]
No comments:
Post a Comment