فلم تبصرہ از: مکرم نیاز
کل اتوار کی چھٹی کے دن راقم الحروف نے "کسی کا بھائی کسی کی جان" دیکھی۔
حیدرآباد (دکن) کی جس تھیٹر میں دیکھی۔۔۔ وہ ہندو اکثریتی علاقہ ہے۔۔۔ لیکن پھر بھی چونکہ عید کا موقع تھا لہذا مسلم فلم بین بھی بڑی تعداد میں تھے۔ اور فلم کا وہ فرسٹ شو ہاؤس فل تھا۔ پبلک کا مجموعی تاثر یہ تھا فلم انہیں پسند آئی۔
میں ذاتی طور پر تینوں خانز کو اس لیے پسند کرتا ہوں کہ ان کی اداکاری کی شروعات اس وقت ہوئی جب ہم کالج کے تعلیمی مراحل طے کر رہے تھے (آج تو ہماری بڑی اولاد خود تعلیمی مراحل ختم کرنے کے موڑ پر ہے)
بہرحال خانز سے ہمارا لگاؤ یوں ہے کہ ان کی اچھی فلموں کی بھرپور ستائش کریں، اوسط فلموں کی داد دیں اور ناکام فلموں کو خاموشی سے نظرانداز کریں یا ان کا دفاع کریں کہ بھئی ہر اچھے اداکار کی فلمیں ناکام بھی ہوتی ہیں۔
بھائی جان کی تازہ فلم اوسط ہے اور میں اس بات کی تعریف کرنا چاہوں گا کہ وہ جب بھی اسکرین پر آتے ہیں چھا جاتے ہیں۔ بھائی جان کا ساتھ وینکٹش نے بھی خوب دیا ہے۔۔۔ اور رام چرن جب گانے میں نمودار ہوئے تو کئی منٹ تک مسلسل تالیاں بجتی رہیں۔
فلم کی ہیروئین کی ایکٹنگ کا سب سے دلچسپ منظر وہ ہے جس میں وہ حیدرآبادی (دکنی) لوگوں کی مزاج کی نقل کرتی ہے کہ کس طرح خوشی، غصہ اور غم کے مواقع پر حیدرآبادی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اور جس طرح کی نقل اس نے کی ۔۔۔ ایسی زبردست نقل پر وہ بلاشبہ سو میں سے نوے نمبر کی حقدار ہے۔
بیس سال پہلے "تیرے نام" (ریلیز: 2003ء) میں سلمان خان کی ہیروئین بن کر آئیں بھومیکا چاؤلہ کو اس فلم میں ہیروئین پوجا ہیگڑے کی بھاوج (وینکٹیش کی بیوی) کے رول میں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے سوہنے چہروں پر وقت کی گردشیں اپنے نشانات چھوڑ جاتی ہیں!
میں بھائی جان کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس فلم میں خود پر بھی طنز کیا کہ وہ اب تک غیرشادی شدہ کیوں ہیں؟ فلم کی ایک اور خوبی بھائی جان کی پہلی ہٹ فلم "میں نے پیار کیا" کی ہیروئین بھاگیہ شری، ان کے شوہر اور فرزند کا کیمیو ہے۔ اور اس فلم (میں نے پیار کیا) کے دو تین سین بھی جب بتائے گئے تو ہمیں اپنے کالج کے دنوں کی یاد آ گئی۔ اس کیمیو منظر میں جب بھاگیہ شری کا بیٹا ابھیمنیو دسانی کہتا ہے کہ اس نے "میں نے پیار کیا" کوئی 50 مرتبہ دیکھی ۔۔۔ تو یہ بھی ایک دنیاوی حقیقت کا اظہار ہے۔۔۔ خود میرے دوستوں میں ایسی مثالیں ہیں جنہوں نے اُس دور میں ق سے ق تک، میں نے پیار کیا اور بازیگر ۔۔۔ کوئی پچاس سے زائد مرتبہ تھیٹر میں دیکھی۔ بات صرف اتنی تھی کہ اُس وقت سوائے تھیٹر کے، انٹرٹینمنٹ کا کوئی دوسرا ذریعہ تھا بھی نہیں، لہذا یہ کوئی ٹھٹھا اڑانے والی بات بھی نہیں بنتی۔
بھائی جان کو سلام کہ اس عید پر ایک ماس انٹرٹیننگ صاف ستھری فلم انہوں نے پیش کی۔ بس تشدد تھوڑا زیادہ محسوس ہوا۔ اگر آپ غور کریں تو اس فلم کے کسی بھی منظر میں ولگریٹی نظر نہیں آتی۔۔۔ یہی سبب ہے کہ بےشمار فیملیز اپنے بچوں اور نوعمروں کے ساتھ تھیٹر میں آئی تھیں اور آ رہی ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایکشن مناظر سے ہٹ کر دیگر سینز میں بھائی جان کی ایکٹنگ اور چہرے کے تاثرات تھوڑا ڈل نظر آتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس فلم میں "بھائی جان" کا جو کردار تراشا گیا ہے، وہ اسی مزاج کا تقاضا کرتا ہے۔
ٹرین والا ایکشن سین غیرفطری سا لگتا ہے مگر خیر دنیا کی کس زبان کی فلم ایسے مناظر سے بھلا مستثنیٰ رہی ہے؟ ویسے یہ سین دیکھتے ہوئے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل "پٹھان" والی ٹرین کی لڑائی کا ایکسٹنشن ہے۔
باقی۔۔۔ جو لوگ مسلسل اس فلم کی منفی تشہیر میں مصروف ہیں، وہ جان لیں کہ فلم کو ہٹ یا فلاپ، فلم دیکھنے والی عام پبلک بناتی ہے۔۔۔ ناقدین یا مبصرین نہیں!
اور دوسری بات یہ کہ ۔۔۔ عوام کے مزاج اور ذہنیت کا ایک لیول ہوتا ہے جس سے معیاری فلموں کا مزاج رکھنے والے یا دنشورانہ طبقے کو یقیناً اختلاف ہو سکتا ہے لیکن عوامی لیول کو چوتیاپا قرار دینا اور یہ کہنا کہ جب تک ایسی فلمیں آتی رہیں گی عوام بیوقوف بنتے رہیں گے ۔۔۔ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ انسانی مساوات کی خلاف ورزی بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment