فلم تبصرہ از: مکرم نیاز
بندہ زندہ ہو تو زندہ نظر آنا ضروری ہے، بندہ ہو تو زندہ ہو۔۔۔
ویلکم بیک ٹو کنگ خان یونیورس!
پچھلی فلم 'پٹھان' کی ہوشربا کامیابی کے بعد سارے پچھلے ریکارڈ توڑنے کی راہ پر گامزن شاہ رخ خان المعروف کنگ خان کی تازہ ترین فلم "جوان" حسب توقع بلاک بسٹر ثابت ہونے جا رہی ہے۔
اپنی کتاب "فلمی دنیا قلمی جائزہ" (طبع شدہ: اگست 2022ء) کے مضمون بعنوان "بالی ووڈ کنگ خان کا تابناک دور ، منفرد فلمیں" کے آخری پیرا میں راقم الحروف نے لکھا تھا:
"پٹھان، جوان اور ڈنکی کے ذریعے کروڑوں انسانوں کے دلوں کی دھڑکن شاہ رخ خاں المعروف کنگ خاں جس جواب کو پانے کے لیے صبر و تحمل سے انتظار کر رہے ہیں، اس عظیم اداکار کی زندہ دلی، بےجگری، توانائی، جوش ولولہ اور یقینِ محکم کو ہم سلام کرتے ہیں۔۔۔ دل سے!"
اور فلم "ڈئر زندگی" کے ایک منظر میں انہوں نے کہا تھا:
"جینئس وہ نہیں ہوتا جس کے پاس سب سوال کے جواب ہوں، جینئس وہ ہوتا ہے جس کے پاس جواب تک پہنچنے کا صبر ہو۔"
کنگ خان جینئس ہوں یا صابر۔۔۔ بہرحال اپنی دوسری اننگ میں قسمت ان کا ساتھ اسی طرح دے رہی ہے جیسے۔۔۔
جیسے دلیپ کمار نے اپنی دوسری اننگ میں شکتی، ودھاتا، مشعل، کرما اور سوداگر کے ذریعے اپنے فن کا لوہا منوایا۔۔۔
جیسے امیتابھ بچن نے اپنی دوسری اننگ میں شہنشاہ، اگنی پتھ اور خداگواہ کے ذریعے مقبولیت حاصل کی۔۔۔
جیسے ونود کھنہ نے اپنی دوسری اننگ میں انصاف، ستیہ میو جیتے اور دیاوان کے ذریعے حیران کن کامیابی حاصل کی تھی۔
فلم 'جوان' کا ایک سطری تعارف کرایا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ۔۔۔ عصر حاضر کے تیز-رفتار فلم بینوں کے لیے بارہ مسالے کی یہ ایسی کھٹی میٹھی تیکھی چاٹ ہے جس میں ایکشن بھی ہے، انسانی جذبات بھی، زمین سے جڑے مسائل بھی، ان مسائل کا جنوبی ہند ٹائپ مخصوص فلمی حل کے ساتھ ساتھ کنگ خان کا اسٹار ڈم بھی!
گرچہ کہ اپنی فلم "آخری راستہ" (1986) کی ریلیز کے وقت بِگ بی پچاس سال کے نہیں ہوئے تھے پھر بھی انہیں اپنی بڑھتی عمر کا احساس تھا تب ہی متذکرہ فلم میں بیٹے کے ساتھ باپ کا رول بھی انہوں نے ادا کیا تھا۔ اور غالباً اسی عمل کی تقلید کرتے ہوئے شاہ رخ خان نے اپنی عقلمندی کا ثبوت دیا ہے کہ پچپن برس کراس کر جانے والے فنکار سے برصغیر کی عوامی ذہنیت کا تقاضا کچھ ایسے ہی ہوتا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ کنگ خان نے فلم "جوان" میں بیٹے سے زیادہ باپ کے کردار کو زیادہ اثرپذیری سے نبھایا ہے۔ خاص طور پر فلم کا سب سے موثر سین وہی ہے جب انٹرول سے عین قبل پردے پر باپ شاہ رخ خان کا نزول ہوتا ہے۔ اور سینما ہال میں سب سے زیادہ داد سمیٹنے والا یہ مکالمہ:
"ہم جوان ہیں، اپنی جان ہزار بار داؤ پر لگا سکتے ہیں لیکن صرف دیش کے لیے، تمہارے جیسے دیش بیچنے والوں کے لیے ہرگز نہیں!"
ہم تو شاہ رخ خان کے اول دن سے (ان کے اولین ٹی۔وی سیرئیل 'فوجی' سے) فین ہونے کے ناتے پٹھان کے بعد جوان کے منتظر تھے ہی، لیکن اس بار تینوں دختران کا تقاضا تھا کہ یہ فلم انہیں بھی دیکھنی ہے۔ تو اس شرط پر دکھائی کہ اپنے تاثرات بھی بیان کرنا ہوں گے کہ ہم جیسی پرانی اور ان جیسی نئی نسل کا جنریشن گیپ معلوم ہو سکے۔
مثلاً ہم شاہ رخ خان کی ایسی فلموں کے دلدادہ رہے جو کہ زمین سے جڑے انسانوں کے مسائل و نفسیات پر مبنی مقصدی فلمیں تھیں مثلاً: راجو بن گیا جنٹلمین، کبھی ہاں کبھی ناں، پردیس، دل سے، محبتیں، کبھی خوشی کبھی غم، سوادیس، مائی نیم از خان، ڈئر زندگی وغیرہ۔
لیکن آج کی نسل کے پاس غور و فکر کے لیے اتنا وقت کہاں؟ اور ایسی فلمیں بنائی بھی جائیں تو پھر ان کا حشر جھنڈ، گڈبائے، اونچائی جیسی بہترین فلموں کی طرح مایوس کن نکلتا ہے۔ تو ہمارا اعتراض بےمعنی ہے کہ فلم میں ایکشن فزکس کے اصول کے خلاف ہے، زمینی مسائل کے حل غیرمنطقی ہی نہیں غیرقانونی بھی ہیں، ہیرو بڑھاپے میں عاشقی کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ابھی کچھ دن پہلے دہلی کے نوجوان صحافی و مصنف اور ہمارے اچھے سے دوست فیضان الحق نے 'جوان' پر شاندار ادبی قسم کا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
"قرض سے پریشان کسانوں کی خودکشی کا واقعہ ہو یا کارپوریٹ سیکٹر کے بالمقابل کسانوں کے ساتھ دوہرا سلوک۔ سرکاری ہسپتال اور پرائیوٹ ہسپتال کے مابین امتیاز ہو یا سیاسی رہنماؤں کے کھوکھلے وعدے۔ ماحولیاتی نظام سے بے پرواہ حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر کی نئی پالیسیاں ہوں یا ووٹ بینک کی سیاست، فلم میں ان تمام مسائل پر بہت سلیقے سے روشنی ڈالی گئی ہے"۔
بات تو انہوں نے درست لکھی ہے مگر سچ بات ایک یہ بھی ہے کہ یہ سلگتے موضوعات تو ساؤتھ کی فلموں کی خاصیت ہیں۔ میری بیٹیاں کہتی ہیں کہ۔۔۔ اجیت کمار، وجے تھلاپتی، سوریہ، موہن لال، دھنش، الو ارجن کی فلمیں انہی مسائل کو زیادہ عمدہ اور ڈرامائی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ دورِ کووڈ اور ماقبل کووڈ زمانے میں ساؤتھ کی بےشمار فلموں کو ہندی ڈبنگ میں دیکھنے والی اس نسل کا کہنا ہے کہ: "جوان" کے بےشمار مناظر ساؤتھ ہی کی کچھ پرانی فلموں سے متاثر ہیں۔ مثلاً جیل کا ماحول، حالات و مناظر وجے تھلاپتی اور وجے سیتھوپتی کی فلم 'ماسٹر' سے، فلم کا ابتدائیہ رام چرن کی 'مگدھیرا' سے، دیہی مسائل دھنش کی فلم کرنن سے، گاڑیوں کے ایکشن مناظر اجیت کمار کی کچھ فلموں سے، رابن ہڈ ٹائپ مدد رجنی کانت اور کمل ہاسن کی فلموں سے۔۔۔
ہم نہیں کہتے کہ بالی ووڈ بانجھ ہو گیا ہے اور ساؤتھ کی فلمیں ترقی کر رہی ہیں۔ بےشک ساؤتھ کی فلمیں حالیہ دور میں زمین سے جڑے مسائل کو جرات و بےباکی سے پیش کر رہی ہیں مگر پھر بھی یہ فلمیں مسائل کا کوئی ٹھوس اور منطقی حل پیش نہیں کرتیں۔ ویسے ہی جیسے ستر اسی کی دہائی میں امیتابھ بچن کی اینگری ینگ مین امیج والی فلمیں۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ زمینی سطح پر ون مین آرمی والا ایکشن ریز عمل ممکن نہیں، عوامی فلم بین طبقہ خوب تالیاں پیٹتا تھا کہ آخر ان کے مسائل تو فلم کے پردے پر پیش کیے گئے۔
جب پوچھا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سماجی مسائل کو اس طرح حل کرنا حقیقت میں ممکن نہیں، فلم کو اس قدر پسند کرنے کی وجہ کیا ہے، تو تینوں بیٹیاں مسکراتے ہوئے کہتی ہیں:
ارے ابو، آخر فلم ہی تو ہے، انٹرٹینمنٹ اور وہ بھی ایس۔آر۔کے کا!
بہرحال اتنی ساری باتوں میں یہ بات تو رہ ہی گئی کہ فلم ہے کیسی؟
پچھلے دنوں میں نے ایک دوست کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس مکالمے:
"بیٹے پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے باپ سے بات کر"
کا مقصد استحصالی قوتوں کے خلاف شاہ رخ کا نجی انتقامی جواب نہیں تھا۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ بےشک نجی جواب نہ رہا ہو، مگر فلم جنوبی ہند ہدایت کار ایٹلی کی تھی۔۔۔ اور جنوبی ہند والے فلم سازوں کی خاصیت ہی یہی رہی ہے کہ ملک و معاشرے کے گرم مسائل کو آرٹ کے پردے میں پیش کیا جائے۔۔۔ یہی سبب ہے کہ فلم کے متعدد مناظر (کہ جن کا ذکر برادرم فیضان الحق کے تبصرے میں شامل ہے) برسراقتدار قوتوں کی سابقہ و حالیہ سنگین کوتاہیوں اور ظلم و جبر کی طرف واضح طور پر اشارے کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات یہ یاد رہے کہ 'جوان' کی کہانی اور اسکرین پلے بھی ہدایت کار ایٹلی نے ہی لکھا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ شاہ رخ خان کی اداکاری کے جوہر اس فلم میں جابجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ ولن کا کردار دونوں باپ بیٹے جتنا پاورفل تھا۔ اور ہماری دختران کا شکوہ رہا کہ چونکہ کنگ خان کا اسٹارڈم ہے لہذا وجے سیتھوپتی کا اسکرین اسپیس ٹائم کم رکھا گیا۔ اور فلم کے موضوع کے مطابق ہیروئین کا رول ہی ویسا تھا کہ نین تارا جیسی قابل ساؤتھ انڈین ایکٹریس کو اپنی منفرد اداکارانہ صلاحیتوں کے اظہار کا موقع کم ہی ملا۔ دوسری طرف سنجے دت کی انٹری اور رول مضحکہ خیز سہی مگر سنجے دت شیدائیان کو فلم تک کھینچ لانے کا سبب بھی ہے۔
ہمارے ہاں دس اسٹار دینے کی روایت ہے، تو دو بیٹیوں نے ساڑھے آٹھ، ایک نے آٹھ، ہم نے بھی آٹھ مگر بیگم نے دس میں سے دس نمبر دیے، جبکہ "زیرو" کو انہوں نے دس میں سے صرف چار نمبر دئے تھے۔ دس کی وجہ پوچھنے پر جواب ملا:
شاہ رخ خان کی پیسہ وصول انٹرٹینمنٹ ہے!!
No comments:
Post a Comment