شمی کپور - بالی ووڈ فلموں کا پہلا باغی اداکار - Musafir | Bollywood Entertainment | Best Songs & Articles Urdu Script

2019/10/21

شمی کپور - بالی ووڈ فلموں کا پہلا باغی اداکار

shammi kapoor

تحریر: رشید انجم (بھوپال)۔

بالی ووڈ فلموں کے افسانوی اداکار شمی کپور (اصل نام: شمشیر راج کپور) 21/اکتوبر 1931 کو برطانوی ہند کے علاقے بمبئی میں پیدا ہوئے اور ممبئی میں ہی بعمر 79 سال 14/اگست 2011 کو وفات پائی۔ ان کی 88 ویں سالگرہ کے موقع پر یہ دلچسپ مضمون پیش ہے۔

راجکپور سے 7 سال چھوٹے پرتھوی راج کپور کے دوسرے بیٹے شمشیر نے ماٹونگا ، ممبئی کے چھوٹے سے مکان میں بچپن گزرا، تعلیم حاصل کی اور بچین میں بی پرتھوی تھیٹر سے جڑ گئے۔ ایک عام ملازم کی طرح تھیٹر میں کام کیا اور تھیٹر کے ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔ اپنے اداکار بھائی سے ایک دم جدا ره کر اپنی فنکارانہ پہچان قائم کی۔
1953ء میں جے۔ بی۔ واڈیا نے فینٹاسی فلم "گل بکاؤلی"میں شیاما کے مقابل ہیرو بنا دیا۔ اس سال "جیون جیوتی" ، "لیلیٰ مجنوں"، "ریل کا ڈبہ" اور "ٹھوکر" فلمیں آئیں۔ اور فلاپ ہو گئیں۔ یہ سلسلہ 1956 تک قائم رہا۔ تقریباً 20 فلمیں ان کی ناکام رہیں۔ ان فلموں میں وہ رومانی ہیرو بھی تھے، مجنوں بھی ، پروانہ بھی، مرزا بھی ، ڈاکو بھی اور تانگے والا بھی۔ اپنے بھائی راج کپور کی طرح مونچھیں رکھتے تھے۔
فلمستان کے مالک ششی دھر مکرجی کو شمی کپور میں اپنا ہیرو نظر آیا تو شمی کپورکو منتخب کر لیا۔ ایس۔ مکرجی فارمولا فلمیں بنانے میں ماہر تھے۔ انہوں نے شمی کپور کا نہ صرف ہیراسٹائل تبدیل کیا بلکہ ان کی مونچھیں بھی صاف کرا دیں اور نئے گیٹ اپ، نئے لک کے ساتھ ناصر حسین کی ہدایت میں فلم "تم سا نہیں دیکھا" میں ہیروئین امیتا کے مقابل پیش کر دیا۔ ناصر حسین کی بھی یہ پہلی فلم تھی اور اسکرپٹ بھی انہیں کا تھا۔ "تم سا نہیں دیکھا" او پی نیر کے ہٹ میوزک سے سجی رومانی فلم ثابت ہوئی اور شمی بطور باغی اداکار Established ہو گئے۔ "باغی" ان معنوں میں کہ بیرو محبت میں ہارتا نہیں ہے۔ ناکام محبت کو بھی سماج، روایت اور رسموں سے بغاوت کر کے کامیاب محبت میں بدلنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
دلیپ کمار راجکپور اور دیوآنند جیسے بلند فنکاروں کے درمیان خود کو منوا لینا بڑا ہی دشوار اور ناممکن سامرحلہ تھا۔ شمی کپور کے لئے ضروری تھا کہ وہ ان سب
سے جدا اپنے فن کی راہیں نکالیں اور "تم سا نہیں دیکھا" کی ہیروشپ امیج نے ان کی مشکلیں آسان کر دیں۔ اور شمی کپور اس باغی امیج میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ یہ خطاب ان کے نام کے ساتھ ہمیشہ کے لئے جڑ گیا۔
اپنے اس باغیانہ کردار کے ساتھ شمی کپور نے پانچویں اور چھٹی دہائی کے بعد تک ہندی فلموں پر راج کیا۔ انہیں Playing a male starlet بھی کہا گیا۔ 1961ء میں سبودھ مکرجی کی فلم "جنگلی" میں شمی کپور کا جو روپ پردے پر نظر آیا اس نے پوری نوجوان نسل کو ان کا دیوانہ بنا دیا۔ ان کی امیج کو ابھارنے میں موسیقی کا بھی بہت بڑا ہاتھ رہا۔ شنکر جے کشن نے دھنیں ترتیب دیں اور ان دھنوں پر حسرت اور شیلندر نے جو گیت لکھے وہ نوجوانوں کے دل کی آواز بن گئے۔ اور پھر محمد رفیع کی وہ انتہائی جذبات کو چھوتی آواز جس نے شمی کپور کو فن اداکاری کے بلند مرتبے پر بٹھا دیا۔ خاص طور سے قلم "جنگلی" میں رومان پرور نعرہ "یا ہو" سب کو پاگل کر گیا۔
ان کی وہ پاگل بنا دینے والی امیج، بالی ووڈ کے مشہور اداکاروں جیمس ڈین اور ایلوس پریسلے کو دھیان میں رکھ کر گھڑی گئی تھی۔ پھر اس پر ان کے رقص کرنے کا انوکھا انداز جس کے اسٹیپ بیک وقت مغربی اور مشرقی رقصوں کا حسین امتزاج ثابت ہو گئے۔ ان تمام فنکارانہ خوبیوں سے لیس جو شمی کپور فلم کے پردے پر پیش ہوا اس نے نہ صرف فلم اور سنیما کو ایک نیا موڑ دیا ، نہ صرف برسوں فلموں پر حکومت کی بلکہ بعد میں آنے والے نوجوان اداکاروں جیتندر سے لے کر آج کے موجودہ اداکار شاہد کپور تک میں ان کے رقص کا انداز اپنایا گیا۔
"جنگلی" کی زبردست کامیابی کے بعد شمی کپور سپر اسٹار بن گئے تھے۔ بھگت سنگھ، مجنوں، مرزا اور دیگر رومانی کردار شمی کپور کی امیج سے ایسے غائب ہوئے کہ کبھی ان کا ذکر بھی نہیں کیا گیا۔

شمی کپور نے دل کھول کر معاشقے کیے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکیوں کے پیچھے سپرپٹ بھاگتے تھے۔ ممتاز سے بھی ان کا عشق اس انتہا کو پہنچا کہ جب ممتاز کو اپنی ماں کی علالت کی اطلاع ملی تو کسی جہاز میں حیدرآباد جانے کے لئے سیٹ نہیں مل پائی تو شمی کپور نے پورا جہاز چارٹرڈ کر کے اپنی محبوبہ کو حیدرآباد بھیج دیا تھا۔
انہوں نے عشق تو خوب کیے لیکن محبت صرف گیتا بالی سے کی اور انہیں سے 1955ء میں شادی بھی کر لی۔ گیتا بالی ان کے بچوں کی ماں بھی بنیں لیکن راجندر سنگھ بیدی کی فلم "رانو" (ایک چادر میلی سی) کی شوٹنگ کے دوران وہ چیچک جیسی بیماری کا شکار ہو کر 1965ء میں انتقال کر گئیں۔ یہ صدمہ شمی کپور برداشت نہیں کر سکے اور خود کو شراب میں ڈبو دیا۔ بچوں کی پرورش، ان کی تعلیم اور تربیت کے علاوہ خود شمی کپور کی زندگی بھی بکھرنے لگی تو ان کی بڑی بھابھی کرشنا نے ایک ماں کا فرض ادا کیا۔ اور اس گرداب سے نکالنے کے لئے ان کی دوسری شادی بھاؤنگر (گجرات) کے راجہ کی بیٹی نیلا دیوی سے کرا دی۔ نیلا دیوی بہار کا خوشگوار جھونکا بن کر اس طرح شمی کپور کی زندگی میں آئیں کہ شمی کپور کو حیات تو مل گئی۔ بچوں کو انہوں نے سگی ماں جیسا پیار دیا۔

شمی کپور کو شکار کا بھی بےحد شوق تھا۔ وہ بھوپال صرف شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اپنی پہلی بیوی گیتا بالی کو لے کر شکار کی غرض سے بھوپال پہنچ کر بینڈ ماسٹر چوراہے پر واقع حمید بھیا کے مکان میں ٹھہرتے تھے۔ ان کے اندر ایک جنگلی پن تھا۔ ایک ضد تھی اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والا مزاج تھا جس کا بھرپور فائدہ ان کی اسٹار امیج کو ملا۔ وہ جنگل میں بےتحاشا جانوروں کا پیچھا کیا کرتے تھے۔ اور کہا جاتا تھا کہ اتنے ہی جنگلی پن سے وہ شہروں میں لڑکیوں کے پیچھے دوڑتے تھے۔ انہی تمام بگڑی عادتوں کو دھیان میں رکھ کر سبودھ مکرجی، ایس۔مکرجی، شکتی سامنت اور من موہن دیسائی نے باکس آفس کے بھرپور فائدے حاصل کیے۔
جنگلی ، جانور ، بدتمیز ، بلف ماسٹر ، اجالا ، کشمیر کی کلی ، راج کمار ، پرنس ، پیار کیا تو ڈرنا کیا ، تم سے اچھا کون ہے ، تیسری منزل ، پگلا کہیں کا ، این ایوننگ ان پیرس ، پروفیسر ، چائنا ٹاؤن ، سنگاپور اور جوان محبت جیسی ہلکی پھلکی رومان پرور میوزیکل فلمیں بنا کر شمی کپور کی داخلی کیفیت کو بڑی مہارت کے ساتھ جگ ظاہر کر دیا۔ ان کے اس دو طرفہ فنی رخ نے ہندوستانی ویلن کو کمال آہستگی سے مات دے دی۔ ان کے گانوں اور رقصوں میں بڑی دلکشی ہوا کرتی تھی۔

نیلا دیوی نے انہیں اپنی چاہتوں کا وہ سہارا دیا کہ ان کا ڈگمگاتا وجود ٹھہر گیا۔ یہاں تک کہ وہ شراب ، تعیش اور سگریٹ نوشی سے ایکدم تائب ہو گئے۔ یہاں تک ہوا کہ انہوں نے خود کو بدل ڈالا۔ قشقہ کھینچا ، طرح طرح کی مالائیں گلے میں ڈالیں ، گیروا لباس پہن لیا اور بس دیر میں بیٹھنا باقی رہ گیا تھا۔ ڈاڑھی بھی رکھ لی اور خود کو بدل کر مطمئن ہو گئے۔

شمی کپور نے 115 فلموں میں ہیرو اور کیرکٹر آرٹسٹ کے بطور اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔
1968 میں جی۔ پی۔ سپی کی فلم "برہم چاری" میں شمی کپور کا ایک اور ہی رخ نظر آیا۔ یہ شمی کپور نہ تو کھلنڈرا تھا، نہ بدتمیز اور نہ جنگلی جانور تھا۔ اس کے بالمقابل ایک دلگداز اور خود کو اوروں کی خاطر مٹا ڈالنے والا انسان اس فلم میں اجاگر ہوا۔ اس فلم نے انہیں نہ صرف اعزاز دلایا بلکہ اس کی ہوشربا کامیابی نے ایک انوکھے شمی کپور کو فلم بینوں کے روبرو لا کھڑا کیا۔
1971 میں جی۔ پی۔ سپی نے دوبارہ شمی کپور کی امیج بدل ڈالی۔ سلیم جاوید کے اسکرپٹ پر رمیش سپی نے فلم "انداز" میں راجیش کھنہ اور ہیما مالینی کے کے مقابل شمی کپور کو سنجیدہ کردار میں پیش کیا۔ یہ شمی کپور اب چھریرا نہیں رہا تھا۔ فربہی (موٹاپے) کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اس فلم کی کامیابی نے شمی کپور کو کیرکٹر آرٹسٹ کی صف مین لا کھڑا کیا اور پھر ان کی اداکاری کا وہ سفر شروع ہوا جس نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ واقعی اپنے والد پرتھوی راج کے صحیح جانشین ہیں۔
بی۔ آر۔ چوپڑہ کی "ضمیر" ، بھرت شاہ کی "شالیمار" ، من موہن دیسائی کی "دیش پریمی" ، راج کپور کی "پریم روگ" ، سبھاش گھئی کی "ودھاتا" اور "ہیرو" ، ایگل فلمز کی "گورے لوگ" ، جے۔پی۔دتہ کی "بٹوارہ" ، ششی کپور کی "عجوبہ" ، انل شرما کی "تہلکہ" ، چیتن آنند کی "ہیر رانجھا"۔ یہ چند فلمیں شمی کپور کی وہ فلمیں ہیں جن میں شمی کپور نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کی چھاپ قائم کی ہے۔ انہوں نے اپنے کرداروں میں جو ڈرامائی تبدیلی کی وہ یقیناً حیرت زدہ کر دیتی ہے۔
انہوں نے دو فلموں کی بھی ہدایت دی تھی۔ انگریزی فلم [Irma la Douce] (1963) کو فلم "منورنجن" (1974) کے نام سے ہندی میں سنجیوکمار اور زینت امان کے ساتھ بنایا جو کہ ایک دلکش مزاحیہ فلم تھی اور جس نے خاصا بزنس بھی کیا تھا۔ 1976 میں راجیش کھنہ کو لے کر فلم "بنڈل باز" بنائی مگر اس کی ناکامی نے انہیں فلم ہدایت کاری سے توبہ کروا ڈالی۔

کمپیوٹر کی ایجاد اور انٹرنیٹ کی آمد نے شمی کپور کو الکٹرونک پرفارمنس کی جانب متوجہ کر لیا۔ شمی کپور وہ پہلے اداکار ہیں جنہوں نے بمبئی میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کلب [Internet Users Community of India (IUCI)] قائم کیا تھا، جس کے وہ بانی اور چیرمین رہے۔ ہندوستان میں انٹرنیٹ اداروں کے قیام اور ان کی ترویج میں بھی وہ کامیاب رہے۔

شمی کپور کی زندگی کے کئی پڑاؤ ہیں۔ پرتھوی راج کا بیٹا ہو کر پرتھوی تھیٹر میں عام سے ایک مزدور کی طرح کام کرنا۔ فلموں میں آ کر لگاتار فلاپ فلمیں دینا۔ ٹھہرنا، رکنا اور پھر چل پڑتا۔ انتہائی شہرت پانا۔ شادی پھر غمی۔ پھر شادی۔ روحانیت کی تلاش میں بھٹکنا۔ شراب پینا پھر تائب ہونا۔ ہیروشپ سے کیریکٹر آرٹسٹ بن جانا۔ اور پھر عمر کے اس آخری پڑاو پر خیمہ زن ہو جانا جہاں گزری عمر کی تمام آسائش ، تمام راحتیں، تمام شہرتیں، تمام ناز برداریاں، جوانی کی تمام جولانیاں، تمام جنوں سامانیاں، بےخطر اڑانوں کی تمام حسرتیں ہاتھ چھڑا کر گرد و پوش ہو جاتی ہیں اور تنہائی کی کربناک ٹیسیں ذہن پر سناٹے کے فریب بن کر گھر کر لیتی ہیں۔ صرف ہمراہ تھیں تو نیلا دیوی کی رفاقت اور اولادوں کا سکھ سے بھرپور مستقبل۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کے آگے سب کچھ ہیچ ہے اور شمی کپور ان روحانی آسائشوں سے پوری طرح مطمین رہے۔

Shammi Kapoor, Bollywood's first rebel actor

No comments:

Post a Comment