فلم : نئی عمر کی نئی فصل (1965)
نغمہ نگار: گوپا داس نیرج
نغمہ : کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
گلوکار : محمد رفیع
موسیقار : روشن
اداکار : راجیو، تنوجہ
یوٹیوب : Karwan Guzar Gaya Gubar Dekhte Rahe
سوپن جھڑے پھول سے میت چبھے شول سے
لوٹ گئے سنگھار سبھی باغ کے ببول سے
اور ہم کھڑے کھڑے بہار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی
پاؤں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی
پات پات جھڑ گئے کہ شاخ شاخ جل گئی
چاہ تو نکل سکی نہ، پر عمر نکل گئی
گیت اشک بن گئے، سوپن ہو دفن گئے
ساتھ کے سبھی دیے دھواں پہن پہن گئے
اور ہم جھکے جھکے، موڑ پر رکے رکے
عمر کے چڑھاؤ کا اتار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
کیا شباب تھا کہ پھول پھول پیار کر اٹھا
کیا کمال تھا کے دیکھ آئینا سحر اٹھا
اس طرف زمین اور آسماں ادھر اٹھا
تھام کر جگر اٹھا کہ جو ملا نظر اٹھا
ایک دن مگر یہاں ایسی کچھ ہوا چلی
لٹ گئی کلی کلی، کہ گھٹ گئی گلی گلی
اور ہم لٹے لٹے، وقت سے پٹے پٹے
سانس کی شراب کا خمار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
ہاتھ تھے ملے کہ زلف چاند کی سنوار دوں
ہونٹ تھے کھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں
درد تھا دیا گیا کہ ہر دکھی کو پیار دوں
اور سانس یوں کہ سورگ بھومی پر اتار دوں
ہو سکا نہ کچھ مگر شام بن گئی سحر
وہ اٹھی لہر کے ڈھے گئے قلعے بکھر بکھر
اور ہم ڈرے ڈرے، نیر نین میں بھرے
اوڑھ کر کفن پڑے مزار دیکھتے رہے
مانگ بھر چلی کہ ایک جب نئی نئی کرن
ڈھولکے دھنک اٹھی دھمک اٹھے چرن چرن
شور مچ گیا کہ لو چلی دلہن، چلی دلہن
گاؤں سب امڈ پڑا بہک اٹھے نین نین
پر تبھی زہر بھری غاز ایک وہ گری
پونچھ گیا سندور تار تار ہوئی چنری
اور ہم اذن سے، دور کے مکان سے
پالکی لیے ہوئے کہار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
No comments:
Post a Comment