کھل نائیک (1993) - بالی ووڈ فلم جائزہ - Musafir | Bollywood Entertainment | Best Songs & Articles Urdu Script

2020/07/05

کھل نائیک (1993) - بالی ووڈ فلم جائزہ

khal-nayak-1993

فلم تبصرہ از: ذوالفقار علی زلفی

فلم کا نام: کھل نائک - Khal Nayak
تاریخ ریلیز: 6/اگست 1993
فلم کی نوعیت: ایکشن، ایڈونچر، کرائم
ڈائریکٹر: سبھاش گھئی [Subhash Ghai]
موسیقی: لکشمی کانت پیارے لال
نغمے: آنند بخشی
مرکزی اداکار: سنجے دت، مادھوری ڈکشٹ، جیکی شراف، انوپم کھیر، راکھی
فلم کی ریٹنگ: 7.2 IMDB

راج کپور کے بعد ہندی سینما کے دوسرے سب سے بڑے شومین کا خطاب ہدایت کار سبھاش گھئی کو دیا جاتا ہے۔ تاہم یہ دونوں فن کار نظریاتی لحاظ سے یکسر مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ راج کپور کی فلموں میں سرمائے اور محنت کا تضاد ملتا ہے جب کہ سبھاش گھئی بھارتی قوم پرستی کو مرکز میں رکھ کر ہندو توا کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ 1993 کی سپرہٹ فلم "کھل نائیک" بھی ان کی ایسی ہی تخلیق ہے۔

"کھل نائیک" کو عموماً نیکی بدی کی کشمکش کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جہاں نیکی، بدی پر غالب آ جاتی ہے۔ سبھاش گھئی کی اس فلم کو بھی ان کی دیگر فلموں کی مانند حب الوطنی ابھارنے سے موسوم کیا جاتا ہے۔ فلم ہیرو، ہیروئن، اینٹی ہیرو اور ایک ولن کے گرد بنائی گئی ہے۔

اینٹی ہیرو بلّو بلرام (سنجے دت) تحریکِ آزادی ہند کے ایک سیاسی کارکن کا بیٹا ہے جو ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کا رکن بن جاتا ہے۔ اس گروہ کا سرغنہ روشن مہانتا (پرمود موتو) بھارت میں دہشت گردی کروا کر ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا خواہش مند ہے۔

روشن کو ناکام بنانے کی ذمہ داری ایک پولیس انسپکٹر رام سنہا (جیکی شیروف) کے کندھوں پر ہے۔ رام بڑی جانفشانی سے بلو بلرام کو گرفتار کرتا ہے مگر بلو جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بلو کا فرار ہونا رام کی پیشہ ورانہ زندگی پر دھبہ بن جاتا ہے۔ رام کی محبوبہ گنگا (مادھوری ڈکشت) جو خود بھی ایک پولیس انسپکٹر ہے؛ رام پر لگا دھبہ دھونے کے لیے بلو بلرام کو دوبارہ پکڑنے کے مشن پر نکل جاتی ہے۔ یہاں سے فلم ایک ٹرائنگل لو اسٹوری میں داخل ہو جاتی ہے۔

سیمیاتی تجزیہ:
سبھاش گھئی چوں کہ بھارتی قوم پرستی اور ہندو توا نظریات کا فلمی پروپیگنڈہ کرتے ہیں اس لیے سب سے پہلے ہندو مائتھالوجی کی روشنی میں کرداروں کا جائزہ لینا بہتر ہوگا۔ فلم کا ہیرو پولیس انسپکٹر رام علامتی طور پر "شری رام بھگوان" کی نمائندگی کرتا ہے۔ بھگوان رام اپنی سوتیلی ماں کیکئی کی سازش کا شکار ہو کر بن باس پر چلے جاتے ہیں۔ فلم کے اسکرین پلے میں کیکئی کا کردار سماج اور میڈیا کو دیا گیا ہے جن کی وجہ سے انسپکٹر رام آزمائش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

انسپکٹر گنگا دو دیومالائی نسائی کرداروں کی مجموعی علامت ہے۔ ایک "گنگا میّا" دوم "سیتا میّا"۔ گنگا ایک مقدس اور پاک دریا ہے جسے گناہ بخشوانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ سیتا ایک ایسی وفا شعار بیوی ہیں جو راون کے چھنگل میں پھنس کر بدنام ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے رام بھگوان ایک دوراہے پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بالآخر اگنی دیوتا ان کی پاک دامنی کی گواہی دے کر رام کو اس کشمکش سے نجات دلانے کا سبب بنتے ہیں۔

بلّو بلرام رامائن کے راونڑ کا کردار نبھاتا نظر آتا ہے جب کہ اس کی ماں آرتی پرساد (راکھی گلزار) دھرتی ماتا کی علامت ہے۔ دھرتی ماتا پُراثر ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کا تصور ہے جو پچاس کی دہائی میں ہندی سینما میں سرایت کرگیا۔ تصورِ دھرتی ماتا پر اس زمانے کی اہم ترین فلم ہدایت کار محبوب خان کی "مدر انڈیا" کو قرار دیا جا سکتا ہے تاہم محبوب خان نے آر ایس ایس کے اس تصور کے گرد کسان اور جاگیردار کا تضاد پیش کیا جسے ہندو توا کے رد کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔

فلم میں دکھایا جاتا ہے پڑوسی ملک (یقیناً پاکستان) کا ایجنٹ روشن مہانتا، دھرتی ماتا کے فرزند کو گمراہ کرتا ہے اور گنگا اسے سدھارنے کی کوشش میں بظاہر میلی ہو جاتی ہے یا سیتا میا کی طرح اس کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے۔ بھگوان رام اور دھرتی ماتا مل کر بلّو کو دوبارہ سیدھے راستے پر لے آتے ہیں اور پڑوسی ملک کی سازش ناکام ہو جاتی ہے۔ فلم کا اختتام بتاتا ہے بلّو بلرام حقیقی راونڑ نہیں ہے بلکہ حقیقی راونڑ، پڑوسی دشمن ملک ہے۔

اب چوں کہ بلّو نہ صرف دھرتی ماتا کا فرزند ہے بلکہ گنگا بھی ہندوستان کی مقدس سرحدوں میں ہی رہتی ہے، اس لیے اس کی عصمت و عفت محفوظ رہتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو راج کپور کے ساتھ تضاد پیدا کرتا ہے۔ راج کپور نے 1985 کی فلم "رام تیری گنگا میلی" میں گنگا کو میلی کرنے کا ذمہ دار جاگیردارانہ حویلی کلچر کو بتایا ہے جب کہ سبھاش گھئی اسے بیرونی دشمنوں کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ اپنے اس نظریے کو سبھاش گھئی نے 1997 کی فلم "پردیس" میں زیادہ کھل کر بیان کیا ہے جہاں گنگا کو بھارت ماتا کی مقدس سرحدوں کے پار امریکہ میں میلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

گنگا اور سیتا کی حفاظت کو ایک گیت "آجا صنم آجا" میں لال دوپٹے اور بھگوان رام کی مورتی کے ذریعے دکھایا جاتا ہے۔ واضح رہے ہندی سینما میں "لال دوپٹے" کو عموماً لڑکی کے کنوار پن اور پاکیزگی کی علامت کے طور پر برتا جاتا ہے۔ اسی طرح بلّو بلرام چوں کہ دھرتی ماتا کا فرزند ہے، کسی مسلم دہشت گرد کی طرح "دوسرا" نہیں، اس لیے اس کے اندر کے محبِ وطن بھارتی کو الیکشن سین میں اچھی طرح بیان کیا جاتا ہے۔ رام کا رویہ بھی اس کے لیے مخاصمانہ نہیں ہوتا کیوں کہ وہ دشمن پڑوسی ملک کا ایجنٹ نہیں بلکہ ایک ایجنٹ کی برائیوں سے متاثر دھرتی ماتا کا معصوم فرزند ہے۔

بلّو کے سدھرنے کا بیان بھی دلچسپ ہے۔ بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے وہ غلط راستے کا انتخاب کرتا ہے لیکن بجائے اینگری ینگ مین کی شکایات دور کرنے یا انھیں درست ثابت کرنے کے دیش بھکتی کو مرکز میں لایا جاتا ہے۔ اس کی ماں کو دھرتی ماتا کے روپ میں پیش کر کے اسے راہِ راست پر لایا جاتا ہے۔

اس سے پہلے اینگری ینگ مین (70 کی دہائی میں امیتابھ بچن کی فلمیں) سرمایہ دار/جاگیردار سے لڑتا تھا لیکن نوے کی دہائی کا اینگری ینگ مین ایک گمراہ نوجوان بن جاتا ہے جو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باوجود بھرت کا دوسرا روپ ہے۔

"کھل نائیک" میں مائتھالوجی کو ایک الگ انداز سے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اوائل میں دکھایا جاتا ہے بلو بلرام، راونڑ ہے لیکن دھرتی ماتا کے جدید قوم پرستانہ تصور کو سامنے لا کر روشن مہانتا کو راونڑ جب کہ بلو کو کیکئی کے فرزند بھرت کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

تبصرہ:
"کھل نائیک" ایک مکمل مصالحے دار فلم ہے جسے لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی کا تڑکا لگا کر مزید دل فریب بنایا گیا ہے۔ اسکرین پلے رواں اور لچھے دار ہے جس کی وجہ سے وحدتِ تاثر برقرار رہتا ہے۔

فلم کی سینماٹو گرافی بھی اعلیٰ ہے۔ اداکاری کے شعبے کو ملا جلا مانا جا سکتا ہے۔ جہاں سنجے دت ، راکھی اور مادھوری دیے گئے کرداروں میں پورے اترے ہیں وہاں جیکی شیروف کی اداکاری پر تصنع حاوی ہے۔ جیکی شیروف بلاشبہ فلم کے کمزور ترین کردار ہیں جن کا عمل اور ردِعمل "لڑکی کا بھائی" جیسا لگتا ہے۔

Khal Nayak (1993), Movie review

No comments:

Post a Comment