فلم تبصرہ از: شیراز شاہد
فلم کا نام: ان-کہی - AnKahee
تاریخ ریلیز: 1985
فلم کی نوعیت: ڈراما و رومانس
ڈائریکٹر: امول پالیکر [Amol Palekar]
موسیقی: جےدیو
نغمے: بال کوی بیراگی
اسکرین پلے: کملیش پانڈے
مرکزی اداکار: امول پالیکر، دیپتی نول، شری رام لاگو، دینا پاٹھک
فلم کی ریٹنگ: 7.3 IMDB
انسان ازل سے ہی مختلف توہمات اور وہموں کا شکار رہا ہے اور یہ توہمات اسے ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جو کہ کئی دفعہ اس کی سوچ اور زندگی میں تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں۔ جہاں ایسی چیزیں اس کی سوچ اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں وہیں اسے اپنے حال پر غور کرنے، مستقبل میں جھانکنے اور تجسس پر مجبور کر دیتی ہیں۔
مستقبل کو جاننے کی کوشش اور تجسس اسے عموماً ان لوگوں کے پاس لے جاتی ہے جو کہ اس علم کو جاننے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ ان باتوں کو اور ان لوگوں کو بہت سارے لوگ سچ مانتے ہیں اور بہت سارے لوگ جھوٹ مان کر رد کردیتے ہیں، یقین اور بے یقینی کی یہ صورتحال کئی سوالوں اور خیالات کو جنم دیتی ہے جو کہ زیادہ تر زبان پر نہیں لائے جاتے اور نہ ہی ان پر کوئی بحث کی جاتی ہے۔
مذکورہ بالا فلم بھی اسی کشمکش کو بیان کرتی ہوئی ایک کہانی ہے جو کہ چار مرکزی کردار پنڈت ستیہ نارائن چترویدی جیوتی بھاسکر (شری رام لاگو)، کماری اندومتی (دپتی ناول)، دیوکی نندن 'نندو' چترویدی (امول پالیکر) اور سشما چٹوپادھیائے (دیویکا مکھرجی) پر مشتمل ہے۔
پنڈت ستیہ نارائن علم نجوم یا ستاروں کے علم کے ماہر ہیں اور مستقبل کے واقعات سے واقف کروانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ اپنے بیٹے نندو (امول پالیکر) کی جنم کنڈلی کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں کہ اس کی دو بیویاں ہوں گی جس میں سے پہلی والی بیوی، بچے کی پیدائش کے وقت مر جائے گی، نندو جو کہ سشما (دیویکا مکھرجی) کے پیار میں مبتلا ہوتا ہے، اپنے باپ کی پیش گوئی پر احتجاج کرتا ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے باپ کی آج تک کی ہوئی کوئی بھی پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی اس لئے وہ مجبور ہے۔ دوسری طرف سشما (دیویکا مکھرجی) اپنے پیار کو پانے کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے، مگر پنڈت جی ایسا نہیں چاہتے۔
اندومتی (دپتی ناول) گاؤں کی ایک بھولی بھالی لڑکی اپنے باپ کے ساتھ نندو کے گھر علاج کی غرض سے کچھ دنوں کے لئے رہنے آتی ہے۔ اندو کا بھولا پن، سادگی اور معصومیت دیکھ کر نندو اسے اپنی بیوی بنانے کی ٹھان لیتا ہے تاکہ وہ اپنی کنڈلی کا دوش ہٹا سکے اور اس کے لئے وہ اندو کے باپ کو شادی کے لئے منا لیتا ہے، لیکن کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا؟
کیا اس بار پنڈت جی کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوگی ؟
کیا اندومتی اپنے اس اندیکھے مستقبل کو مات دے پائے گی ؟
اور کیا سشما نندو کے اس فعل میں اس کا ساتھ دے گی یا نہیں ؟
یہ سب وہ سوال ہیں جن کے جواب فلم دیکھنے پر ملیں گے۔
فلم جہاں توہم پرستی اور مستقبل شناسی کے پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے وہیں یہ جدید اور پرانے زمانے کی سوچ کے درمیان جاری مقابلے کو بھی دکھاتی ہے جس میں نئی نسل کی سوچ پرانی نسل کی سوچ کو نہ صرف چیلنج کرتی ہے بلکہ اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہوئے اسے من گھڑت اور دقیانوسی قرار دیتی ہے اور یہ نسل ابھرتے ہوئے جدید ہندوستان کی سوچ کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔
فلم کے دیگر پہلوؤں کا ذکر ہو تو مرکزی کرداروں کے علاوہ معاون اداکار جن میں دینا پاٹھک، ونود مہرا، انیل چیٹرجی اور ودھو ونود چوپڑا شامل ہیں، نے بہترین کام کیا خصوصاً ونود مہرا اور انیل چیٹرجی نے۔
فلم کا سکرین پلے اچھا ہے لیکن بہتری کی گنجائش محسوس ہوتی ہے اس کے علاوہ فلم کی موسیقی کو کلاسیکل اور فلم کے مرکزی خیال کو سامنے رکھتے ہوئے مذہبی رنگ دیا گیا ہے، فلم کے گیت آشا بھوسلے اور پنڈت بھیم سین جوشی نے گائے ہیں۔
فلم قومی سطح کے دو ایوارڈز جیتنے میں کامیاب ہوئی جن میں بہترین میوزک ڈائریکشن اور بہترین مرد گلوکار شامل ہیں۔ یہ فلم اداکار امول پالیکر کی بحیثیت ہدایت کار پہلی فلم رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment