انداز (1949) - محبت کی تکونی داستاں - دلیپ کمار کی فلم کا جائزہ - Musafir | Bollywood Entertainment | Best Songs & Articles Urdu Script

2021/07/21

انداز (1949) - محبت کی تکونی داستاں - دلیپ کمار کی فلم کا جائزہ

andaz-dilip-kumar-rajkapoor-nargis-movie-1949

فلم تبصرہ از: ذوالفقار علی زلفی


فلم کا نام: انداز - Andaz
تاریخ ریلیز: 18/مارچ 1949
فلم کی نوعیت: رومانس، ڈراما
ڈائریکٹر: محبوب خاں [Mehboob Khan]
موسیقی: نوشاد
نغمے: مجروح سلطان پوری
مرکزی اداکار: دلیپ کمار، راج کپور، نرگس، مراد
فلم کی ریٹنگ: 7.2 IMDB


ہدایت کار محبوب خان کا شمار ہندی سینما کے اہم ترین فن کاروں میں کیا جاتا ہے۔ "انداز" (1949) ان کی شاندار تخلیقات میں سے ایک ہے۔
یہ محبت کی ایک تکونی داستان ہے۔ جس کے ایک کونے پر دلیپ (دلیپ کمار) ، دوسرے پر راجن (راج کپور) اور تیسرے پر مینا (نرگس) کھڑی ہیں۔
اس فلم میں دلیپ کمار کا کردار ایک ایسے اجنبی کا ہے جس کی ملاقات اتفاق سے جدید مغربی ثقافت (برطانوی نوآبادیاتی ثقافت) سے مغلوب لڑکی مینا سے ہو جاتی ہے۔ دونوں دوستی/محبت کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔ مینا کا محبوب راجن جس کے ساتھ اس کی شادی طے ہو چکی ہے اس دوران ملک میں موجود نہیں ہوتا۔ دلیپ مینا کی دوستی کو محبت سمجھ کر پیش قدمی کی کوشش کرنے ہی لگتا ہے کہ راجن آ جاتا ہے۔ یہاں سے ان تینوں کے درمیان کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔


اس فلم میں دلیپ کمار نے اپنے کردار سے کامل انصاف کیا ہے۔ وہ شروع میں شوخ، درمیان میں مغموم اور آخر میں ایک غصیلے انسان کا روپ دھارتے ہیں۔ ان تینوں انسانی جذبات کی انہوں نے نہایت ہی اچھی نمائندگی کی ہے۔


"انداز" کو مابعد نوآبادیاتی نظام ہندوستان کی قومی شناخت و ثقافت کی بازیابی کی فلمی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ عموماً نوآبادیاتی نظام کے خلاف مغلوب اقوام کی تحریکات میں بورژوا قوم پرستی کا عنصر حاوی رہتا ہے۔ بورژوازی کے غلبے یا قیادت کے باعث نوآبادیاتی نظام کے شکار اقوام بالادست طبقات کے مفادات کو قومی مفاد کا نام دے کر اسی کی روشنی میں اپنی مائتھالوجی، تاریخ اور ثقافت کی بورژوا تشریح و تعبیر کرتی ہیں۔ ہندوستان میں بھی عام طور پر مقامی ثقافت کو فیوڈل اقدار و روایات کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش کا گہرے اثرات تقسیم کے بعد کی ہندی سینما پر بھی مرتب ہوئے۔
"انداز" جدید مغربی ثقافت کو برطانوی نوآبادیاتی ثقافت قرار دے کر اسے مسترد اور ہندوستان کی فیوڈل ثقافت کی بڑائی کو بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے۔


ہندوستانی فیوڈل ثقافت کی نمائندگی مینا کا اشراف طبقے سے متعلق باپ کرتا ہے۔ وہ مینا کو خبردار کرتا ہے کہ اس کا طرزِ عمل (مغربی کلچر) اسے برباد کر دے گا۔ فلم بظاہر ایک ٹرائنگل لو اسٹوری ہے تاہم اس کے سیمیاتی تجزیے سے پہلے تاثر کی مکمل تردید ہو جاتی ہے۔ یہ فلم کاملاً مغربی و ہندوستانی ثقافت کے درمیان تقابل کی کہانی ہے۔


مغربی ثقافت کو درست تسلیم کرنے والی مینا دلیپ کو اپنا دوست تصور کرتی ہے لیکن جاگیردارانہ تہذیب کی عینک سے دنیا کو دیکھنے والا دلیپ اسے جنسی کشش سمجھتا ہے۔ مینا کا رویہ متضاد رہتا ہے۔ اس کا ایک پیر مغربی تہذیب کے دائرے میں جبکہ دوسرا ہندوستان کے فیوڈل روایات میں پھنسا ہوتا ہے۔ جیسے ایک جگہ وہ راجن کو اپنا دیوتا قرار دے کر اپنی محبت کو دیوتا پر چڑھائے گئے اس پھول سے تشبیہہ دیتی ہے جو ایک دفعہ بھگوان کی نذر ہونے کے بعد دوسری جگہ نہیں چڑھایا جا سکتا۔ یہ تضاد بہرکیف مینا کا نہیں بلکہ اس کے متضاد معروض کا ہے جو نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تاحال ثقافت و شناخت کا درست راستہ متعین کرنے میں ناکام ہے۔


ازدواجی زندگی میں زہر گھلتے دیکھ کر مینا جاگیردارانہ ثقافت کی جانب پلٹتی ہے۔ وہ اپنے باپ کی تصویر (جاگیرداریت کی علامت) کے سامنے کھڑی ہو کر اس کے درست ہونے کو تسلیم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ شہر سے دور دیہات جا کر رہنے کی ضد کرتی ہے تاکہ وہ مغربی ثقافت کے "کیچڑ" سے اپنا دامن بچا سکے۔


راجن کا ردعمل بھی جاگیردارانہ ہوتا ہے۔ جاگیردارانہ ثقافت میں مرد و زن کی دوستی کا کوئی تصور نہیں ہوتا اس لیے راجن ؛ مینا اور دلیپ کے تعلق کو دلیپ کی طرف سے اپنی ذاتی جاگیر پر حملہ گردانتا ہے۔ وہ مینا کی جانب سے دیے گئے پھول کو خوشبو سے عاری قرار دیتا ہے۔ یہاں پھول کی خوشبو سے مراد ہندوستانی ثقافت ہے جس سے راجن کی نگاہ میں مینا کا دیا گیا پھول محروم ہے۔


قومی شناخت کے بازیافت کے عمل میں قومی ثقافت کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا یا نوآبادیاتی شناخت پر اصرار کرنا غداری کی علامت ہے۔ قوم سے غداری کسی معافی کی مستحق نہیں ہوتی۔ مینا کو بھی بالآخر اس غداری کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
دوسری جانب فیوڈل کلچر میں کسی کی ذاتی ملکیت بشمول عورت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا چوں کہ جرم کے زمرے میں آتا ہے اس لیے دلیپ کو بھی راجن کی ذاتی ملکیت پر قبضہ کرنے کی کوشش پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔


"انداز" کے اختتام میں مینا اور راجن کی چھوٹی سی بچی کو علامتی طور پر دکھایا جاتا ہے۔ یہ "پتی ورتا" سیتا یا ساوتری ہے جو مغربی ثقافت کی آلائش سے پاک مستقبل کی خالص ہندوستانی فیوڈل ثقافت کی نمائندہ ہے۔


Andaz (1949), Movie review. Reviewer:Zulfiqar Ali Zulfi.

No comments:

Post a Comment