فلم کا نام (تامل): سورارئی پوٹرو - சூரரைப் போற்று - Hail the brave
تلگو نام: ఆకాశం నీ హద్దురా - The sky is the limit
تاریخ ریلیز: نومبر 2020
فلم کی نوعیت: ڈرامہ / بائیوگرافی / انسپائرشنل
ڈائریکٹر: سدھا کونگارا [Sudha Kongara]
فلمساز: سوریہ / گنیت مونگا
مرکزی اداکار: سوریہ ، پریش راول، اپرنا بالامرلی
فلم کی ریٹنگ: 8.7 IMDB
کورونا وبا نے اس سال ہندوستانی فلم انڈسٹری کو بھی خاموش کر دیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بالی ووڈ کے مقابلے میں جنوبی ہند کی فلمی صنعت کسی حد تک فعال ہو گئی یا ہو رہی ہے، جیسا کہ۔۔۔ کے۔جی۔ایف-2، آر۔آر۔آر، سالار اور ماسٹر جیسے بڑے بجٹ کی فلموں نے شائقین میں ہلچل مچا کر انہیں سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ میں سرگرم کر رکھا ہے۔
ابھی چند دن قبل راقم نے ایک تقریب میں شرکت کی خاطر حیدرآباد (تلنگانہ) سے کرنول (آندھرا پردیش) کا سفر کیا تھا۔ ساڑھے تین تا چار گھنٹے کا یہ سفر بس کے ذریعے طے ہوا۔ گارودا اے۔سی بس کی آرام دہ نشستیں اور پرسکون سفر ۔۔۔ ایسے میں عموماً یہی عادت رہی کہ موبائل میں وی۔ایل۔سی پلئیر پر ساٹھ تا اسی کی دہائی کے منتخب نغموں کی پلے-لسٹ بنائی اور ہیڈفون کان پر چڑھا کر بیک-ٹو-پاسٹ!
اس بار بھی ایسا کرتے ہوئے سامنے لگے ٹی۔وی پر نظر دوڑ رہی تھی کہ کچھ ہی دیر میں سانگ پلے۔لسٹ کو بھول کر ٹی۔وی والی فلم پر ساری توجہ مرکوز ہو گئی۔ گوکہ فلم تلگو میں تھی (اور ہماری تلگو بس کام چلاؤ لائق) لیکن انگلش سب-ٹائٹلس نے آسانی بھی فراہم کی۔
فلم تھی تامل سوپر اسٹار سورِیہ کی تامل سے تلگو ڈبنگ کی "آکاشم نی ہدّورا (آسمان حد ہے)"۔
ابھی کل ہی گوگل نے ہندوستانی گوگل سرچ ٹرینڈز کے اعداد و شمار برائے سال 2020ء جاری کیے ہیں۔ اور فلم تلاش کے شعبے میں دو فلموں کو سب سے زیادہ ہندوستانی صارفین نے سرچ کیا ہے:
اول: آنجہانی سشانت سنگھ راجپوت کی آخری فلم "دل بچارہ" (ریلیز: جولائی)
دوم: تامل سوپر اسٹار سورِیہ کی "سورارئی پوٹرو" (ریلیز: نومبر)
اور یہ وہی تامل فلم ہے جس کا تلگو ورژن بس کے سفر میں اس طرح دیکھنے کا موقع ملا کہ کب فلم ختم ہوئی اور کب بس کا سفر بھی اختتام کو پہنچا اس کا کچھ پتا ہی نہ چلا۔
یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ اس تامل اداکار سورِیہ سے پہلی بار واقفیت کرنول میں ہی دیکھی گئی ایک تلگو فلم "گینگ" (جنوری-2018) سے ہوئی تھی اور اس کی اداکارانہ صلاحیتوں کا تقابل اجےدیوگن کی اسی طرز کی ایک فلم "ریڈ" سے کرتے ہوئے یہ ماننا پڑا تھا کہ اداکاری میں سوریہ سوا سیر ہے۔
اس فلم کو یقیناً انسپائرشنل مووی کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی یہ ایک حقیقی واقعہ یا تحریک سے مستعار ہے۔ تقریباً تمام معتبر و معروف فلم ناقدین نے اس فلم کو پانچ میں سے ساڑھے چار یا چار ستارے دئے ہیں۔
ہندوستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ کیپٹن گوپی ناتھ کی زندگی کے کچھ اہم واقعات پر مبنی یہ فلم بتاتی ہے کہ کس طرح ایک مہم جو اور حوصلہ مند شخص نے عوام کے لیے سستی ترین ائرلائن کے آغاز کا خواب دیکھا، ارادہ کیا اور اپنے ارادے کو تمام تر مشکلات کے باوجود بالآخر تکمیل تک پہنچایا۔
فلم میں کئی جذباتی مناظر ایسے ہیں کہ فلم بین بعض اوقات اپنے حلق میں بےساختہ آنسوؤں کی نمکینی محسوس کرنے لگتا ہے۔
اپنے مریض باپ کی عیادت کے لیے ائرپورٹ پر مسافرین سے رقمی مدد کی درخواست کرنے کا منظر ہو یا اپنے منصوبہ کی ناکامی پر دلبرداشتہ ہو کر چھت پر پہنچ کر یکبارگی زور زور سے چلا اٹھنا ۔۔۔ یہاں پر سر کمل ہاسن کا وہ یادگار کردار یاد آ جاتا ہے کہ ۔۔۔
فلم "نایاکن" میں کمل ہاسن اپنے اکلوتے بیٹے کی لاش گود میں لیے لاچار بیٹھا ہے اور چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ روئے یا چیخے چلائے یا خود کو مارے؟ بس وہ سین دیکھنے ہی کے لائق ہے، تو اسی پس منظر میں سوریہ کی جذباتی اداکاری کی بھی داد دینا پڑے گی۔
کسی تامل فلم میں بالی ووڈ اداکار پریش راول کا یہ پہلا داخلہ ہے۔ پریش گوسوامی، یعنی وہ فرد جس نے انفرادی تکلیفیں اور پریشانیاں جھیل کر "جاز ائرلائنز" کا آغاز کیا اور اسے بامِ عروج تک یوں پہنچایا کہ دوسرے اس کی امنگ، بےلوث جذبے اور سخت محنت سے سبق سیکھیں۔ لیکن جب سوریہ اس سے اپنی ائرلائن "دکن ائر" کے آغاز کے سلسلے میں مدد لینے جاتا ہے تو پریش کا سرد رویہ اور مخالفانہ طرز عمل۔۔۔ ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتا ہے کہ بڑا آدمی کتنا بھی نیک نیت اور ناصح ہو مگر جب خود کی آزمائش کا موقع آئے تو اس پر مادیت پرستی غالب ہو جاتی ہے۔
گرم جذبات سے لبریز لہجے میں ردعمل کا مکالمہ، اداکار کو فنکار کے درجہ پر لے جاتا ہے:
"کیا آسمان ان کے اجداد کی جاگیر ہے؟ ذرا طیارے کو اتارو تو سہی، میں نپٹتا ہوں ان سے۔۔۔"
بس کی پچھلی نشستوں سے چند تالیاں بجیں، ورنہ تھیٹر ہوتا تو یقیناً بھرپور تالیوں سے گونج اٹھتا۔
عموماً ایسی فلموں میں ہیروئین کا کردار تھوڑا دب سا جاتا ہے، جیسا کہ ہندی فلم "پیڈمین" کی مثال۔ مگر اس فلم میں نسائی کردار اس لیے مساوی درجے پر ہے کہ دونوں ہی اپنی اپنی دھن کے پکے ہیں، ہیروئین کو اپنی بیکری کی تشہیر و ترقی کی فکر اور ہیرو کو سب سے سستی ائرلائن کمپنی قائم کرنے کی دھن۔ اور غضب یہ کہ دونوں نظریاتی اختلاف کے باوجود شادی کے بندھن میں جڑتے ہیں۔ پھر شادی شدہ زندگی میں جو عملی، ذہنی اور جذباتی ٹکراؤ کے مسائل پیش آتے ہیں، فلم میں ان کی عکاسی بھی زمینی اور فطری محسوس ہوتی ہے، بالی ووڈ کی فلموں کی طرح ڈرامہ بازی نہیں۔
فلم کا آخری حصہ فلم کی جان ہے۔
پے درپے ناکامی سے دوچار ہیرو "مارا" جب بالآخر اپنے دوستوں، بہی خواہوں اور اپنے گاؤں والوں کی طرف سے کمپنی شئرز کی بڑھ چڑھ کر خریداری کے ہمدردانہ تعاون کے ذریعے، ملک بھر میں سب سے سستی ائرلائن "دکن ائر" کے قیام میں کامیاب ہو جاتا ہے اور افتتاحی فلائٹ کا آغاز کرنے جاتا ہے تو مسافر صرف ایک ہوتا ہے: ہیرو کی بیوی!
تو کیا افتتاحی فلائٹ کینسل کر دی جاتی ہے؟
کیا ہمارے ہیرو کی ساری جدوجہد ناکام ہو گئی؟
کیا ملک کی سب سے سستی ائر لائن کا منصوبہ محض خواب ہی رہ گیا؟
ان سوالوں کے جواب آپ کو فلم دیکھنے پر ہی مل سکیں گے۔
No comments:
Post a Comment