دیوداس (1955) - دلیپ کمار کی یادگار فلم کا جائزہ - Musafir | Bollywood Entertainment | Best Songs & Articles Urdu Script

2021/07/18

دیوداس (1955) - دلیپ کمار کی یادگار فلم کا جائزہ

devdas-dilip-kumar-movie-1955-review

فلم تبصرہ از: ذوالفقار علی زلفی

فلم کا نام: دیوداس - Devdas
تاریخ ریلیز: 30/دسمبر 1955
فلم کی نوعیت: سوشل ڈراما
ڈائریکٹر: بمل رائے [Bimal Roy]
موسیقی: ایس۔ ڈی۔ برمن
نغمے: ساحر لدھیانوی
مرکزی اداکار: دلیپ کمار، سچرا سین، وجینتی مالا، موتی لال
فلم کی ریٹنگ: 7.9 IMDB


بنگالی ناول نگار پنڈت شرت چند چٹرجی نے متعدد ناول و افسانے لکھے لیکن جو شہرت ان کے ناول "دیوداس" کو ملی کسی کو نہ مل سکی۔ 1917 کو شائع ہونے والے اس ناول پر مختلف زبانوں میں درجن سے زائد فلمیں بن چکی ہیں۔ کم از کم پانچ فلمیں تو ہندی زبان میں بن چکی ہیں۔ اس وقت بحث کا موضوع اس ناول پر بنی 1955 کی فلم "دیوداس" ہے جس کو ممتاز ہدایت کار بمل رائے نے ہدایات دی ہیں۔


"دیوداس" محبت اور نرگسیت کی المناک داستان ہے۔ جاگیردار بنگالی برہمن خاندان کے چشم و چراغ دیوداس (دلیپ کمار) اور غریب برہمن پاروتی/پارو (سچتراسین) ایک دوسرے کے ہمسائے اور بچپن کے ساتھی ہوتے ہیں۔ دیوداس کی شرارتوں سے تنگ آکر اس کا باپ لڑکپن میں ہی اسے پڑھنے کے لیے کلکتہ بھیج دیتا ہے۔ جوان ہونے کے بعد جب وہ گاؤں لوٹتا ہے تو نوخیز پارو سراپائے محبت بنی اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ لڑکی کی ماں بیٹی کی آنکھیں پڑھ کر جاگیردار کے پاس رشتہ لے جاتی ہے جسے طبقاتی فرق کے باعث ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ پارو کا باپ اس کی شادی ایک ادھیڑ عمر رنڈوے سے کروادیتا ہے جبکہ دیوداس کلکتہ کے ایک کوٹھے کی نذر ہوکر شرابی بن جاتا ہے۔ وہاں ایک طوائف چندرمکھی (وجینتی مالا) کو اس سے یکطرفہ محبت ہوجاتی ہے لیکن دیوداس ، پارو کی یاد کو دل میں جلائے شراب میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ بالآخر ایک دن شراب اور ناکام محبت اس کی جان لے لیتے ہیں۔


"دیوداس" ایک ایسے دور کی فلم ہے جب ہندوستان کا سیاسی و سماجی طبقہ نوآبادیاتی نظام کے چھنگل سے نکلنے کے بعد قوم پرستانہ نکتہِ نظر کے تحت قومی شناخت کی بحالی کی جدوجہد کر رہا تھا۔ اس جدوجہد کے اثرات اس فلم پر بھی نظر آتے ہیں تاہم چوں کہ اس فلم کی بنیاد نوآبادیاتی دور (1917) میں رکھی گئی تھی اس لیے ہدایت کار کی متعدد کوششوں کے باوجود نوآبادیاتی نظام کے مہیب سائے مکمل طور پر چھپ نہ سکے۔ قوم پرستانہ تناظر کو واضح کرنے کے لیے نوآبادیاتی دور میں بنائی گئی "دیوداس" کا سرسری ذکر ضروری ہے تاکہ تقابل میں آسانی رہے۔


ناول پر بنائی گئی پہلی معروف "دیوداس" 1936 کو ریلیز ہوئی جس کے ہدایت کار "روشن خیال" پرمتھیش بروا ہیں۔ اس میں دیوداس کا کردار اس زمانے کے لیجنڈ اداکار و گلوکار کے ایل سہگل نے نبھایا۔ بروا کی فلم میں دیوداس کو جاگیردارانہ نظام کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے تعلیم کے نام پر کلکتہ بھیجا جاتا ہے۔ کلکتہ نوآبادیاتی حکمرانوں کا مضبوط مرکز ہوتا ہے گویا دیوداس کو درحقیقت بدیسی تہذیب و تمدن میں ڈھلنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ وہاں وہ انگریزوں کے بنائے ہوئے تعلیمی ادارے میں پہنچتا ہے جہاں کے طلبا اس کے مقامی (دیہاتی) لباس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ اس کی دوستی سوٹ بوٹ میں ملبوس لالچی چنی بابو (اے ایچ شورے) سے ہوتی ہے۔ دیوداس کلکتہ سے لوٹنے کے بعد دیسی لباس (دھوتی کرتا) چھوڑ کر سوٹ اور ٹائی میں نظر آتا ہے۔


بمل رائے کی فلم میں دیوداس کو کلکتہ بھیجا تو جاتا ہے لیکن قوم پرستانہ تناظر کو مضبوط رکھنے کے لیے کلکتہ کے برطانوی تعلیمی ادارے کو حذف کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح کلکتہ سے لوٹنے والا دیوداس بھی اپنے مقامی ہندوستانی لباس میں نظر آتا ہے جبکہ چنی لال (موتی لال) کا کردار بھی لالچ سے پاک ہندوستانی دکھتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کا رد اور ہندوستانی قوم پرستی کا جذبہ فلم کے تقریباً ہر سیکوینس سے جھلکتا ہے۔


بروا کی "دیوداس" کے برعکس بمل رائے کی فلم دیوداس اور پارو کے بچپن سے شروع ہوتی ہے۔ ایک "خالص" ہندوستانی گاؤں جہاں دیو اور پارو کے درمیان بچپن کی معصوم محبت پروان چڑھ رہی ہے۔ فلم کو بچپن سے شروع کرنے کا مقصد ہندوستانی پسِ منظر کو واضح کرنا ہے۔
جب دیو کو کالونیل علامت کلکتہ بھیجا جاتا ہے تو پارو کے جذبات کو ایک گیت:
"آن ملو، آن ملو شیام سنورے"
کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے جو علامتی طور پر "رادھا کشن" کے اساطیری محبت کی تعبیر ہے۔ اس گیت کو ہتھیار بنا کر پارو ہندو مائتھالوجی کے ذریعے دیو کو نوآبادیاتی ثقافت چھوڑ کر دوبارہ ہندوستان کی جانب پلٹنے کا کہتی ہے۔ اسی طرح کلکتہ کی شہری یا دوسرے لفظوں میں نوآبادیاتی ثقافت سے بنا آلودہ ہوئے دیو جب واپس لوٹتا ہے تو پارو دیا جلا کر اس کا استقبال کرتی ہے جو علامتی طور پر دیوداس کو بھگوان کشن اور پارو کو رادھا منوانے کی کوشش ہے۔


دیوداس کالونیل جاگیردارانہ روایات و اقدار کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ وہ چاہ کر بھی پارو کو نہیں اپنا سکتا۔ وہ دیہاتی ماحول میں رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ مزاحمت کرتا ہے لیکن ہار جاتا ہے۔ ہارنے کے باوجود وہ جاگیردارانہ روایات پر چلنے سے انکار کرتا ہے۔ اس انکار کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ دیہات اسے قبول نہیں کرتا۔ وہ دوبارہ کالونیل ثقافت کی علامت شہر کا رخ کرتا ہے۔


فلم میں شہر کی ہر طرح سے مذمت کی گئی ہے۔ وہ چاپلوس، لالچی، خودغرض اور جھوٹوں کی دنیا ہے۔ دیو شہری تہذیب و تمدن کو قبول نہیں کرتا۔ وہ شہر میں رہ کر بھی اس سے لاتعلق رہتا ہے۔ وہ شراب پینے لگتا ہے، بے تحاشا اور بے حساب۔ وہ دیگر شہری کرداروں کے برخلاف شراب سے لذت کشید نہیں کرتا بلکہ اس کے اپنے الفاظ میں:
"کون کم بخت برداشت کرنے کے لیے پیتا ہے۔ ہم تو اس لیے پیتے ہیں کہ سانس لے سکیں"۔
وہ اپنی ناکامی، فرسٹریشن اور اجنبی بن جانے کے عمل کو شراب میں زائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نشے میں اور زیادہ دیہاتی ثقافت اور اس کی علامت پارو سے اپنے تعلق کو مضبوط پاتا ہے۔


دیوداس اوائل میں چندرمکھی کو بھی شہری ثقافت کا نمائندہ سمجھ کر اس سے نفرت کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ چندرمکھی کا کردار کھلتا جاتا ہے اور وہ کیچڑ میں کنول کی طرح نظر آنے لگتی ہے۔ وہ "لکشمی" کا روپ بن کر سامنے آتی ہے۔ لکشمی جو خوش حالی کی دیوی ہے۔ دیو سے جُڑ کر وہ بھی شہری ماحول سے بیگانہ ہوجاتی ہے۔ وہ دیہات جا کر رہنے لگتی ہے۔ جیسے کسی دور میں دیوداسیاں مندر جاکر رہتی تھیں۔ ہندوستانی تہذیب و تمدن میں گُھلنے کے بعد چندرمکھی بھی پارو بن جاتی ہے۔ بالآخر دیوداس اس کی روح میں اتر جاتا ہے اور اسے "میری چندرمکھی" کہہ کر پکارتا ہے۔ شہری ثقافتوں کے دو بیگانے ایک دوسرے سے ایک نیا تعلق استوار کر لیتے ہیں جس کے مرکز میں ہندوستانی ثقافت کھڑی نظر آتی ہے۔
دیو اسے پارو سے تشبیہہ دے کر ان دونوں کی ممتاز شناخت کو واضح کرتا ہے:
"ایک (پارو) بڑی خوددار اور چنچل ، دوسری (چندرمکھی) شانت اور گھمبیر۔ پارو کچھ نہیں سہہ سکتی اور تم سب کچھ سہہ سکتی ہو۔ اس کی کتنی عزت ہے اور تم کتنی بدنام ہو۔ اسے سبھی پیار کرتے ہیں اور تم سے نفرت۔ لیکن میں تم سے نفرت نہیں کرتا، کر ہی نہیں سکتا"۔
دیوداس کی چندرمکھی سے محبت کا اعلان علامتی طور پر کالونیل نظام سے بیزاری اور ہندوستانیت سے محبت کا اعتراف ہے۔


"دیوداس" کی پیشکش چوں کہ قوم پرستانہ ہے اس لیے طبقاتی اور صنفی جبر کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایک جاگیردار کا اپنے بیٹے اور پارو کے رشتے سے انکار طبقاتی سوال اٹھاتا ہے۔ دوسرے جاگیردار کا بیٹی کی عمر کی پارو سے شادی صنفی جبر کو آشکار کرتا ہے۔ اسکرین پلے لیکن ان دونوں سوالوں کو قوم پرستی اور ہندو مائتھالوجی کی قوم پرستانہ تشریح و تعبیر کے پردے میں چھپا دیتا ہے۔


حتی کہ جب دیوداس کی لاش درخت کے نیچے پڑی ہوتی ہے اور پارو دوڑتی ہوئی اس کے پاس جانا چاہتی ہے تب جاگیردارانہ سماج آئنی دروازہ بن کر اس کے سامنے حائل ہوجاتی ہے۔ پارو کی انگلیاں پدرشاہیت پر استوار جاگیرداریت کے ہاتھوں زخمی ہوجاتی ہیں۔ یہاں ایک دفعہ پھر طبقاتی و صنفی جبر واضح نظر آتا ہے لیکن اس سین کو جس اگلے سین کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے وہ طبقاتی و صنفی تضاد کو چھپا کر فلسفہِ بیگانگی کو سامنے لاتا ہے ؛ بیگانگی کی شکار عورت کی زخمی انگلیاں اور ایک اجنبی مسافر کی میت۔


اس سین سے پہلے ریل سیکوینسز کی تفصیلات اور جزئیات بھی دلچسپ ہیں۔ جہاں قوم پرستانہ نکتہِ نظر اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ ٹرین دوڑ رہی ہے ، انجن سیٹی پر سیٹیاں بجا رہا ہے۔ شہری نوآبادیاتی تہذیب سے بیزار دیوداس نہیں جانتا اس کی منزل کہاں ہے۔ شہر آتے ہیں اور پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ مدراس، بمبئی، کلکتہ، لاہور ۔۔۔ نوآبادیاتی ثقافت کے بڑے بڑے مراکز۔ دیو ان کو نظر انداز کرتا جاتا ہے۔ چنی لال اسے شراب پلاتا ہے، شراب اسے پارو تک پہنچاتی ہے تب وہ جان جاتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے۔ مانک پور؛ ایک "ہندوستانی" دیہات۔ دیہات کے ساتھ اس کا رشتہ اپنائیت کا ہوتا ہے۔ دیہات جہاں اصلی ہندوستان بستا ہے۔


اس کے ساتھ ساتھ کشن، رادھا اور لکشمی کی تثلیث نوآبادیاتی ثقافت کے خلاف ہندوستانی مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ اس تثلیث کو ایک سین میں بڑی خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ دیہاتی ہندوستان کی کچی اور کیچڑ بھری سڑک پر پارو کی پالکی دیو کے گاؤں سے آتی ہوئی ایک دوراہے پر پہنچتی اور اس دوراہے پر دیوداس کے گاؤں جاتی چندرمکھی کھڑی ملتی ہے۔ تینوں راستوں کے نکتہِ اتصال پر دونوں عورتیں آپس میں مل جاتی ہیں ۔ تثلیث یہاں مکمل ہوجاتی ہے۔ بنا کچھ کہے اور سنے کیمرہ سب کچھ بیان کر دیتا ہے۔


"دیوداس" نوآبادیاتی دور کی کہانی ہونے کے باوجود نہرو عہد کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہندوستانی شناخت کی متلاشی، نوآبادیاتی ثقافت سے منکر اور ہندو اساطیر کی قوم پرستانہ تشریح۔ اس پورے عمل میں وہ طبقاتی و صنفی جبر کو کُلّی طور پر نظر انداز کرتی ہے۔ وہ عورت سے ستی ساوتری بننے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پارو اس مطالبے کے سامنے سر جھکا کر اپنی ہم عمر لڑکی کی ماں بن جاتی ہے۔ وہ چندرمکھی سے دیوداسی بننے کا کہتی ہے ؛ وہ ماں اور محبوبہ کا مرکب بن کر دیوداس کی حفاظت کرتی ہے۔


چلتے چلتے :
"دیوداس" کے لیے سچترا سین اور وجینتی مالا پہلے انتخاب نہ تھے۔ بمل رائے کی خواہش تھی پارو کا کردار مینا کماری اور چندرمکھی کا نرگس نبھائے۔ مینا کماری کے شوہر کمال امروہی کے بعض سخت شرائط کی وجہ سے مینا کماری چاہ کر بھی پارو نہ بن پائی جبکہ نرگس اس مطالبے کی وجہ سے حذف ہوگئیں کہ مجھے پارو کا کردار دیا جائے۔ یوں گھوم پھر کر یہ کردار انہیں ملے جو منصوبے میں شامل نہ تھے۔ یہ ہوتا ہے اتفاق۔


Devdas (1955), Movie review. Reviewer:Zulfiqar Ali Zulfi.

No comments:

Post a Comment