محسن احسان (پیدائش: 15/اکتوبر 1932، پشاور - وفات: 23/ستمبر 2010، لندن)
اردو کے ایک بلند پایہ شاعر، ادیب اور ماہر تعلیم رہے ہیں جو اسلامیہ کالج پشاور میں انگریزی کے پروفیسر اور صدر شعبۂ انگریزی کے عہدہ پر فائز بھی رہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ناگزیر، ناتمام، ناشنید، نارسیدہ، مٹی کی مہکار اور سخن سخن مہتاب شامل ہیں۔ انہیں علامہ اقبال ایوارڈ اور نقوش ایوارڈ کے علاوہ ہندوستان میں فیض احمد فیض بین الاقوامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ سنہ 1981ء میں جب وہ چند روزہ دورہ پر ہندوستان آئے تھے تو انہیں اپنے ہم وطن دلیپ کمار سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا جس کا تذکرہ انہوں نے رسالہ 'شمع (نئی دہلی)' کو ارسال کیے گئے اپنے ایک خط میں کیا تھا۔ ماہنامہ "شمع" (شمارہ: اکتوبر-1981ء) کے کالم "بازگشت" میں شائع شدہ وہی خط یہاں پیش ہے۔پروفیسر محسن احسان کے خط کا عکس (شائع شدہ شمع، اکتوبر-1981ء)
میں جب پشاور سے دلی کے لیے روانہ ہوا تو میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اپنی سرزمین کے ایک ایسے مایہ ناز فلمی اداکار سے ملاقات ہو جائے گی جس کے فن کی دھوم ایک طویل عرصہ سے فلمی دنیا میں مچی ہوئی ہے۔
میں ساگر اپارٹمنٹس میں قیام پذیر تھا۔ اسی بلند و بالا عمارت کی چودھویں منزل پر دلیپ کمار کا فلیٹ بھی ہے۔ مگر ملاقات ان سے نئی دلی کے ایک ہوٹل میں ہوئی۔ تعارف اور مزاج پرسی کے بعد دلیپ کمار پشاور کا حال احوال پوچھنے لگے۔ وہاں کے گلی کوچوں کے نام، قصہ خوانی بازار، چوک یادگار، پل پختہ، شہباز کا کنواں، رسالدار کی گلی اور بہت سی دیگر جگہوں کا ذکر انہوں نے کیا، جہاں انہوں نے بچپن گزارا تھا۔
گفتگو کے دوران دلیپ کمار کی آنکھوں میں پرانی یادوں کی چمک اور بچپن کے ناقابل فراموش لمحوں کی روشنی بار بار لوٹ آتی تھی۔
میں نے پوچھا:
"آپ کو ان دنوں کا کوئی خاص واقعہ یاد ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"کتنی ہی یادیں محفوظ ہیں۔ ایک واقعہ تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا۔ انگریز سامراج کے خلاف جب تحریک آزادی چل رہی تھی تو ایک روز قصہ خوانی میں ایک بہت بڑا جلوس نکلا تھا۔ لوگ پرجوش نعرے لگا رہے تھے؛
'انگریزو، ہندوستان چھوڑ دو!'
کی آوازیں بلند کر رہے تھے۔ جلوس جب آگے بڑھا تو اس نہتے جلوس پر برطانوی حکمرانوں نے گولی چلا دی۔ ایک گولی کا نشانہ ایک نوجوان پٹھان بنا جو تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہو گیا۔"
پھر دلیپ کمار نے بتایا کہ انہوں نے ایک دکان کے تھڑے کے نیچے چھپ کر اپنی جان بچائی تھی۔
دلیپ کمار نے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کا ذکر کیا جو اب بھی پشاور میں رہتے ہیں۔ اپنے پھوپھی زاد بھائی اسحاق جان کے بارے میں انہوں نے خاص طور پر پوچھا۔ میں اسحاق کو جانتا ہوں، اس لیے میں نے تفصیل سے ان کی بابت دلیپ کو بتایا۔ یہ جان کر دلیپ بہت خوش ہوئے کہ ایک بڑے حادثے کی زد میں آنے کے باوجود اسحاق جان اب مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں۔
اس کے بعد گفتگو کا موضوع تعلیم کی طرف پلٹا۔ میں نے انہیں تفصیل سے پشاور یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی اور اگریکلچرل یونیورسٹی کے قیام کے بارے میں بتایا۔ طلبا کے تعلیمی معیار، مختلف تعلیمی اسکیموں کا حال، طلباء طالبات اور اساتذہ کی تعداد، سائنس اور فنون کی تعلیم کے بندوبست کی تفصیل سن کر دلیپ کمار کو مسرت ہوئی کہ ان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے نوجوان اب بڑی تیزی سے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
میرے ساتھی عرفان باری نے پوچھا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں آتے؟
تو انہوں نے بتایا کہ ان کا جی بہت چاہتا ہے کہ وہ پاکستان جائیں، خاص طور پر پشاور۔ وہاں کے حالات سے آگاہی حاصل کریں، وہاں کے لوگوں سے ملیں، لیکن اپنی مصروفیات اور بعض دوسری مشکلات کے پیش نظر ان کا جانا انہیں ممکن نظر نہیں آتا۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے جانے سے حکومتِ ہند یا حکومتِ پاکستان کے لیے کوئی مشکل پیدا ہو جائے۔ اسی لیے وہ جانے سے گریز کرتے ہیں۔
ویسے دلیپ کمار کے اندر چھپا ہوا انسان اپنے آبائی شہر کے گلی کوچوں کو دیکھنے کا بےحد مشتاق ہے۔
باتیں کرتے کرتے سوا گھنٹہ جیسے پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ دلیپ انگریزی اور پنجابی میں گفتگو کرتے رہے۔ وہ دونوں زبانیں بڑی بےتکلفی سے بول رہے تھے۔
رخصت ہوتے ہوئے میں نے اپنے تازہ شعری مجموعہ "ناتمام" کی ایک جلد انہیں پیش کی۔ انہوں نے ورق گردانی کی، ایک دو شعر پڑھے، داد دی اور وعدہ کیا کہ وہ کتاب پڑھنے کے بعد اپنی رائے لکھ بھیجیں گے۔
پھر دروازے تک آ کر دلیپ کمار نے ہمیں رخصت کیا۔ ان کے چہرے پر مسرت کے جذبات تھے، آنکھوں میں دلکش اور شریر مسکراہٹ تھی اور ہونٹوں پر محبت کے پیار بھرے یہ بول:
"میرے شہر کے تمام دوستوں کو میرا بہت سلام کہنا۔"
- (ایسوسی ایٹ پروفیسر) محسن احسان، پشاور (پاکستان)۔
No comments:
Post a Comment